بلاگ
Time 27 جولائی ، 2021

تحریکِ انصاف کی جیت مگر...!

آپ کو گزشتہ کالم میں بتا دیا تھا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کامیابی حاصل کرکے حکومت بنا لے گی، یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس الیکشن میں دوسری جماعتوں کو بھی حصہ ملے گا مگر تحریک انصاف سے کم ہوگا۔

44حلقوں کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی 25نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہے، جس حلقے کا رزلٹ روکا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اس حلقے یعنی باغ شرقی کے چار پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ ہو گی۔

 یہ سیٹ بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آئے گی کیونکہ یہاں سے تحریک انصاف کے سردار میر اکبر خان نے 23ہزار ووٹ حاصل کر رکھے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سردار قمر زمان نے 21ہزار ووٹ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اب جب پی ٹی آئی کی حکومت بھی بن چکی ہو گی تو یہ چار پولنگ اسٹیشن خودبخود تحریک انصاف کی جھولی میں آگریں گے۔

گزشتہ کالم کے آخر میں بڑے دکھ کے ساتھ لکھا تھا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران اخلاقیات کو مدنظر نہیں رکھا۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کی عادات ذرا مختلف ہیں، ان کے رہن سہن میں گالم گلوچ کا کلچر بہت کم ہے۔ 

انتخابی مہم کو چند پارٹیوں نے ہائی جیک کر رکھا تھا، میڈیا نے بھی خالصتاً ریاست کشمیر کی جماعتوں کو نظر انداز کیا۔ اگرچہ جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی الگ شناخت ہے مگر کشمیر کی واحد ریاستی جماعت صرف اور صرف مسلم کانفرنس ہے۔ 

اس الیکشن میں ناقابلِ شکست سمجھے جانے والے مسلم کانفرنس کے ملک نواز بھی ہار گئے، ملک نواز آزاد کشمیر کے واحد سیاستدان ہیں جو گزشتہ 35 سال سے مسلسل جیت رہے تھے ،سات الیکشن جیتنے کے بعد آٹھویں بار قسمت ان سے روٹھ گئی۔آزاد کشمیر کے لوگوں نے اس مرتبہ دل کھول کر صرف ایک ہی حلقے میں ووٹ دیے، وہ حلقہ مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان کا ہے۔ 

پورے الیکشن میں جس شخص کی سب سے بڑی لیڈ یعنی 17 ہزار ہے، وہ سردار عتیق احمد خان ہیں، وہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے حلقے کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں ورنہ ان کے حلقے کے بڑے شہر دھیر کوٹ میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا ’’نواز شریف کو مائنس کرنے والو! آؤدیکھو، دھیر کوٹ والوں نے نواز شریف کو پلس، پلس، پلس کر دیا ہے۔‘‘

یہ الفاظ انہوں نے شدت جذبات میں کہے ہوں گے۔ اب حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دھیر کوٹ والوں نے نواز شریف کو نہیں بلکہ مجاہد اول کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کو پلس، پلس، پلس کیا ہے۔

اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے سب کو حیران کیا حالانکہ ان کی الیکشن مہم درمیان میں بالکل ٹھنڈی پڑ گئی تھی کیونکہ بلاول بھٹو زرداری امریکہ چلے گئے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ پیپلز پارٹی سات آٹھ نشستیں حاصل کرے گی مگر پیپلز پارٹی کے تین امیدواروں نے خاص طور پر سب کو حیران کر دیا۔

 ان میں مظفر آباد سے سردار جاوید ایوب اور سید بازل علی نقوی کے علاوہ کوٹلی کے قریبی حلقہ نکیال سے جاوید اقبال بڈھانوی شامل ہیں۔ یہ حلقہ مدتوں سے سردار سکندر حیات کا ہے، اس مرتبہ ان کے بھائی الیکشن لڑ رہے تھے مگر ہار گئے۔ پیپلز پارٹی نے گیارہ نشستیں حاصل کر کے زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔

مسلم لیگ ن کو صرف چھ نشستیں مل سکیں۔ آزاد کشمیر کی حدود کے اندر سے ن لیگ کو چار سیٹیں ملیں باقی دو سیٹیں پنڈی والوں کی مہربانی سے ملیں۔ پنڈی میں سردار نسیم نے شاندار مہم چلائی، آپ سب نے دیکھا کہ مریم نواز کے جلسے شاندار رہے مگر ان کا بیانیہ نہ بک سکا۔

رہی سہی کسر پولنگ ڈے پر گوجرانوالہ میں ن لیگ کے امیدوار اسماعیل گجر نے پوری کر دی، یہی وہ بیانیہ ہے جس نے ن لیگ کو غیرمقبول بنا دیا ہے۔

آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر ایک نشست سے ہارنے اور دوسری نشست بمشکل جیتنے کے بعد کشمیری قوم پر غصہ نکال رہے ہیں، انہیں غلامی کے طعنے دے رہے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر بھول گئے ہیں کہ وہ اسی خطے میں وزیراعظم رہے ہیں، انہیں یاد ہونا چاہئے کہ انہوں نے نواز شریف کو مجبور کیا تھا کہ آزاد کشمیر میں ن لیگ بنائی جائے۔

یقیناً نواز شریف کی بھی یہی خواہش تھی اسی لئے انہوں نے قائداعظم کے فرمودات کو نظرانداز کر کے مسلم کانفرنس کی کوکھ سے مسلم لیگ ن نکالی۔ اس وقت مسلم لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق سمیت کئی رہنماؤں نے میاں نواز شریف کو قائد اعظم کے فرمودات اور طرز عمل سے آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے تمام باتوں کو نظر انداز کر کے ن لیگ بنا ڈالی۔

آزاد کشمیر کے لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ آخر انہوں نے ان جماعتوں کو کیوں نظر انداز کیا جو خالصتاً ریاست کی جماعتیں ہیں، انہیں اپنے رویے پر غور کرنا ہو گا۔ 1970ء میں تو صرف مسلم کانفرنس، لبریشن لیگ اور آزاد مسلم کانفرنس نے الیکشن لڑا تھا، کشمیری عوام کے نمائندوں نے خود دوسروں کو راستہ دیا۔ بقول غزالہ حبیب ؎

کون تھامے ہے کس کا ہاتھ یہاں

کون کس کا یہاں سہارا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔