بلاگ

افغانستان میں طالبان کا بڑھتا اثر و رسوخ

قطر معاہدے کے مطابق امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں اس حوالے سے دلچسپی دیکھی جا رہی ہے۔ تجزیہ نگار تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے حالات کو پُرامن اور معمول پر رکھنا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔

افغانستان کے طول و عرض میں طالبان کی صف بندی ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے ہو رہی ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد اس کے مستقبل کے بارے میں عالمی سطح پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا افغان طالبان دوبارہ وہاں قابض ہونے والے ہیں اور کیا وہاں دوبارہ 90کی دہائی والے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟ 

یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ستمبر میں مکمل ہونا ہے لیکن اس سے پہلے ہی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مختلف صوبوں میں افغان فوج اور پولیس کے یونیفارم میں ملبوس سرکاری دستے طالبان کمانڈروں کے سامنے ہتھیار پھینک کر ان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہر دوسرے دن افغانستان سے افغان طالبان کے مختلف صوبوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ افغان حکومت کا کنٹرول روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے۔

بین الاقوامی مبصرین یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کی موجودگی کے بغیر افغانستان کی سول حکومت اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ وہاں کے تمام صوبوں پر اپنی رِٹ قائم رکھ سکے۔ ان حالات میں افغان عوام کے ذہنوں میں مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا؟ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں بیس سال سے جاری جزوی ترقی کا عمل رک جائے گا؟ کیا خانہ جنگی کے سبب ایک مرتبہ پھر افغانستان سے بڑی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے؟ اور اگر افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی لہر آئی تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ سوال بھی ہنوز جواب طلب ہے کہ اقتدار اور طاقت کے مراکز پر کون قابص ہوگا؟ کیا طالبان اور افغان حکومت مفاہمت کے تحت معاملات حل کرلیں گے۔

یاد رہے کہ 2001میں افغانستان پر قبضے کے لئے شروع ہونے والی جنگ میں امریکہ طالبان کو ہرانے میں ناکام رہا تو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان فروری 2020میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے ہوا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لئے اقدامات کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا اور اس کی تمام جزئیات طے کر لی گئی تھیں۔

ایک طرف تو امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات جاری تھے لیکن دوسری طرف طالبان بھی نئی صف بندی میں مصروف ہو گئے۔ اس کا عکس پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مذاکرات کی صورت میں نظر آیا۔ نیٹو فورسز نے افغانستان میں سب سے بڑا بگرام ائیر بیس مکمل طور پر خالی کر دیا ہے۔ امریکہ 300سی 17ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے اپنا فوجی ساز و سامان پہلے ہی افغانستان سے نکال چکا ہے۔

مئی 2021میں امریکہ نے جنوبی افغانستان میں قندھار ایئر فیلڈ سے بھی انخلا کو مکمل کیا تھا جو دوسرا سب سے بڑا غیرملکی فوجی اڈہ تھا۔ امریکی فوجی جو سامان ساتھ نہیں لے جا رہے، اسے طالبان سے بچانے کیلئے تباہ کردیا گیا ہے۔ امریکہ نے 11ستمبر 2001کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت پر حملوں کے ردعمل میں افغانستان میں جنگ شروع کی تھی۔ اس جنگ کو اس سال اکتوبر میں 20سال ہو جائیں گے۔افغانستان سے تمام امریکی فوجی اس سال 11ستمبر کو نائن الیون حملوں کے 20سال مکمل ہونے سےپہلے نکل جائیں گے۔

موجودہ دورۂ امریکہ میں صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر بھرپور کوشش کی کہ اتحادی افواج کے انخلا کو روکا جا سکے لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی، تاہم امریکی حکام کے اپنے سفارت خانے کی حفاظت کے لئے 650فوجیوں کی تعیناتی برقرار رکھنے کی خبر پر افغان طالبان نے سخت ردعمل دیا، جس سے یہ خدشات ابھر کر سامنے آئے ہیں کہ اگر کابل ائیرپورٹ پر ترکی اور کابل کے مرکز میں امریکی تعینات رہیں گے تو غیرملکی افواج سے تصادم کا خطرہ بھی موجود رہے گا جس سے افغانستان میں امن کے کسی فارمولے پر بات چیت کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔

اشرف غنی اس میں بھارت کو ملوث کرکے امن منصوبے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ پاکستان کے لئے طالبان کے ساتھ مفاہمت کرکے عبدﷲ عبدﷲ اور اشرف غنی کی بھارت نوازی کی کوششوں کو ناکام بنانا ضروری ہے۔ یہ ایک بڑی پیچیدہ صورت حال ہے جس کا اس وقت افغانستان کے علاوہ پاکستان کو بھی سامنا ہے کیونکہ کسی بھی غیرمتوقع صورت حال میں مملکت کو نئی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا، خدانخواستہ خانہ جنگی ہوتی ہے تو مہاجرین کا بڑا ریلا پاکستان ہجرت کرے گا اور ان میں ملک دشمن عناصر چھپ کر آ سکتے ہیں، جن کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سسٹم امریکی انخلا تک مکمل ہونے کی توقع ہے جس کے بعد پاکستان ہنگامی حالات میں اپنی سرحدیں سیل کرنے کی استعداد بروئے کار لا سکے گا لیکن افغان مہاجرین کے نئے ریلے میں انتہا پسندوں کی پہچان دشوار گزار عمل ہوگا، مہاجرین کی آمد کو عالمی قوانین کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، اقوامِ متحدہ کے دباؤ پر مہاجرین کی آمد پر پابندی عائد کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

ان حالات میں پاکستان کو تین اطراف سے ملک دشمنوں سے بھی لڑنا ہوگا اور امریکہ کو فضائی اڈے اور افغان جنگ میں حصہ نہ بننے کے پالیسی بیان کے بعد ناراضی و دوریاں مزید بڑھ جانے سے فٹیف کی طرح نت نئے مطالبات اور ڈو مور کا سامنا رہے گا جس کا مقابلہ و سامنا کرنے کے لئے قبل از وقت ایک مشترکہ حکمتِ عملی کی تشکیل ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔