19 اکتوبر ، 2012
اسلام آباد…سپریم کورٹ نے اصغر خان کی درخواست قابل سماعت قرار دیدی ہے۔سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ یہ عوامی نوعیت کا کیس ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے کہ ریاست اپنی اتھارٹی منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو سربراہ ریاست نہیں کہاگیا،آئین توصدر کوسربراہ کہتا ہے، وزیراعظم تو سربراہ حکومت ہوتا ہے،آئین کے تحت سب سے بڑا عہدہ صدر کا ہے،جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دینگے، بھرپور کوشش کررہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں جمہوری عمل چلے گا، صدر بننے والا شخص، الیکشن آفس نہیں بناسکتا،صدر کو غیرجانبدار ہونا چاہئے۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم صدر کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، کیس میں بیان کردہ حقائق درست تسلیم کرلیں تو صدر ایسا نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے آفس کو آئین ریگولیٹ کرتا ہے، وہ وفاق کی علامت ہے، صدر کا یہ کام نہیں کہ وہ کہے کہ ایک سیاسی جماعت کو جتوادو اور ہروا دو، جب صدر کیلئے سب برابر ہوں تو ہی صدر جمہوریہ کی علامت بن سکتا ہے، آئین میں دکھادیں کہ کہاں لکھاہے کہ صدرکا آفس سیاسی ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے عدلیہ صدر کے آفس کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے،صدر جمہوریت ہٹانے اور اسمبلیوں کو تحلیل کیلئے نہیں ہوتا، صدر کا عہدہ سیاسی آفس ہوتا ہے۔ اصغرخان کیس 16 سال پہلے سپریم کورٹ میں دائر کیاگیا تھا، جس میں اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیئے جبکہ درخواست گزار اصغرخان کے وکیل سلمان راجانے جوابی دلائل پیش کیے۔موجودہ سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ گذشتہ سال زیر سماعت آیا، سپریم کورٹ کے موجودہ بنچ سے قبل اس مقدمے کی آخری سماعت 12 اکتوبر 1999 ء کو ہوئی تھی۔