پاکستان
19 اکتوبر ، 2012

حکومت اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف قانونی اقدام کرے، سپریم کورٹ

حکومت اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف قانونی اقدام کرے، سپریم کورٹ

اسلام آباد…سپریم کورٹ نے اصغر خان کی درخواست قابل سماعت قرار دیدی ہے اور کہا ہے کہ اسلم بیگ اور اسد درانی کا عمل فوج کی بدنامی کا باعث بنا وفاقی حکومت ان کے خلاف قانونی اقدام کرے، رقوم کی تقسیم کی تحقیقات ایف آئی اے کرے۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلم بیگ، اسد درانی اور دیگر نے الیکشن سیل کی غیر قانونی حمایت کی، یہ انفرادی عمل تھا، اداروں کا نہیں، فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی،آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، غیر قانونی سرگرمی میں شریک ہوئے، ایوان صدر میں 90ء میں الیکشن سیل قائم ہوا، انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش تھی، صدرحلف وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، صدر تمام جمہوریہ کا نمائندہ ہے، سپریم کورٹ نے آرڈر میں کہا کہ 90ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اورسیاسی عمل آلودہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ یہ عوامی نوعیت کا کیس ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے کہ ریاست اپنی اتھارٹی منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو سربراہ ریاست نہیں کہاگیا،آئین توصدر کوسربراہ کہتا ہے، وزیراعظم تو سربراہ حکومت ہوتا ہے،آئین کے تحت سب سے بڑا عہدہ صدر کا ہے،جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دینگے، بھرپور کوشش کررہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں جمہوری عمل چلے گا، صدر بننے والا شخص، الیکشن آفس نہیں بناسکتا،صدر کو غیرجانبدار ہونا چاہئے۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم صدر کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، کیس میں بیان کردہ حقائق درست تسلیم کرلیں تو صدر ایسا نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے آفس کو آئین ریگولیٹ کرتا ہے، وہ وفاق کی علامت ہے، صدر کا یہ کام نہیں کہ وہ کہے کہ ایک سیاسی جماعت کو جتوادو اور ہروا دو، جب صدر کیلئے سب برابر ہوں تو ہی صدر جمہوریہ کی علامت بن سکتا ہے، آئین میں دکھادیں کہ کہاں لکھاہے کہ صدرکا آفس سیاسی ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے عدلیہ صدر کے آفس کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے،صدر جمہوریت ہٹانے اور اسمبلیوں کو تحلیل کیلئے نہیں ہوتا، صدر کا عہدہ سیاسی آفس ہوتا ہے۔ اصغرخان کیس 16 سال پہلے سپریم کورٹ میں دائر کیاگیا تھا، جس میں اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیئے جبکہ درخواست گزار اصغرخان کے وکیل سلمان راجانے جوابی دلائل پیش کیے۔موجودہ سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ گذشتہ سال زیر سماعت آیا، سپریم کورٹ کے موجودہ بنچ سے قبل اس مقدمے کی آخری سماعت 12 اکتوبر 1999 ء کو ہوئی تھی۔

مزید خبریں :