بلاگ
Time 31 اکتوبر ، 2021

پنجاب مزدور کارڈ

کوئی 97سال پہلے ، لینن کی وفات پراقبال نے کہا تھا

تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ  مزدور کے اوقات

کوئی پچپن سال پہلے بندہ  مزدور کے اوقات کی تلخی کو کم کرنےکےلئے سوشل سکیورٹی نام کا ایک ادارہ بنایا گیامگر مزدورکو سماجی تحفظ تو کجابھوک کی وحشت خیزیوں سے نجات حاصل نہ ہو سکی ۔بڑے بڑے دور آئے مگر بندہ  مزدور کے اوقات تلخ ہی رہے ۔ملوں میں کمخواب کے ڈھیر بننے والوں کی اپنی بیٹیاں تار تارکو ترستی رہیں ۔

اطلسی قالین بنانے والےبچوں کی پشت سے کھردری چٹائیوں کے نشان ختم نہ کئے جاسکے ۔اگر اس میں کوئی تبدیلی آئی تو عمران خان کے دور میں آئی ۔مجھے سوشل سکیورٹی کے کمشنر سید بلال حیدر نے بتایا کہ میں نے یکم فروری 2021 کو چارج سنبھالا تو اس کے سات دن بعد میرے سامنے دستخط کےلئے فائل آئی ۔

یہ 27600 روپے کی زچہ بچہ گرانٹ اپریل 2017میں اپلائی کی گئی تھی۔ خانیوال کی یہ عورت ان 27ہزار روپوں کےلئے لاہور کے کئی چکر لگا چکی تھی ۔مجھے بہت دکھ ہوامیں نے سوچا کہ اب توپیدا ہونے والا چار سال کا ہو چکا ہوگا۔لعنت ہو اس دفتروں میں گھومتی ہوئی فائل کی رفتار پر ۔

مجھے اس وقت یہ نظام چکی کے دو پاٹوں کی طرح محسوس ہوا جن میں مزدور پستا چلا جارہا ہے۔ میں نے فوری طور پر ایک موبائل ایپ تیار کرائی ہمارے ادارےکے جو مزدوروں کےلئے گیارہ بینیفٹ تھے ان سب کو اس میں شامل کر لیاگیا۔

ایسا کمپوٹر کا نظام تیار کرایا کہ جو مزدور اپنے موبائل فون سے گرانٹ اپلائی کرے ، اسے دس دن کےاندر وہ گرانٹ اپنی گلی کی نکڑپر موبائل کیش کی دکان سے مل جائے ۔اس کمپیوٹر سسٹم میں یہ بھی رکھ دیا گیا کہ کوئی افسر دس دن میں گرانٹ پراسز کرنے میں کوتاہی کرے تو کمپوٹر خود ہی اس کی جاب ختم کردے ۔

اس وقت تک کمپیوٹر تین لوگوں کو جاب سے معطل کر چکا ہے۔ جب سے یہ سلسلہ ہوا ہے 84 فیصد لوگوں کو دس دن کے اند گرانٹ مل رہی ہے ۔جن سولہ فیصد کو نہیں مل سکتی وہ صرف وہ لوگ ہیں جوموبائل ایپ میں اندراج درست انداز میں نہیں کر پاتے ۔

سوشل سیکورٹی کا ادارہ اورورکر ویلفیئر فنڈ سال میں تقریباً گیارہ ارب روپے مزدوروں کو کیش کی صورت فراہم کرتے ہیں، سوشل سیکورٹی لگ بھگ بارہ ارب روپے ان کی دوائوں اور علاج معالجہ پر لگاتاہے۔

اس وقت سوشل سیکورٹی کے تقریباً بارہ لاکھ مزدور رجسٹرڈ ہیں ۔ان کی فیملیوں کے اسی لاکھ افراد یعنی سوشل سیکورٹی کا ادارہ پنجاب بھرمیں 92لاکھ افراد کی نگہداشت کررہا ہے ۔میں نے اس سلسلےمیں کچھ مزدوروں سے بھی معلومات حاصل کیں ۔

ایک مزدور نے بتایا کہ میرے ایک عزیز محمد وحید کو سوشل سیکورٹی نےلیور ٹرانسپلانٹ کےلئے 51 لاکھ روپے دئیے ہیں۔ایک خاتون رشیدہ بی بی جو کینسر مریضہ ہے اس نے بتایا کہ مجھے سوشل والے علاج کےلئے ہر تین مہینے بعد اٹھارہ لاکھ روپے دیتے ہیں۔

ایک کینسر کی مریضہ سے معلوم ہوا کہ وہ دوہزار بارہ سے مسلسل ہرتین مہینےبعد علاج کےلئے چھ لاکھ روپے لیتی ہے۔لیکن سب سے اہم کام جو سید بلال حیدر نے بحیثیت کمشنر سوشل سیکورٹی کیا ہے ۔ وہ مزدور کارڈ کا اجرا ہے ۔صوبہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب مزدور کار ڈ کے ذریعے بینک آف پنجاب کے تعاون سے 11 لاکھ مزدوروں کے بینک اکاؤنٹس کھولے جا رہے ہیں۔

اس اقدام سے نہ صرف مزدورمالی طور پر مستحکم ہوں گے بلکہ حکومت پنجاب کی جانب سے طے کردہ مزدور کی کم از کم اُجرت کی بذریعہ بینک اکاؤنٹ ادائیگی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔

پنجاب مزدور کار ڈ کو اے ٹی ایم، ڈیبٹ کارڈ، موبائل والٹ اکاؤنٹ اور شناختی کوڈ کے لئے استعمال کیا جا سکے گا پنجاب مزدور کار ڈ کے ذریعے ورکرز اور اُن کے اہل خانہ سے متعلق ڈیٹا بھی میسر ہو گا ۔

پنجاب مزدور کار ڈ صوبہ بھر میں سوشل سکیورٹی کے 21 ہسپتالوں اور 228 میڈیکل آئوٹ لیٹس پر استعمال کیا جا سکے گا ۔ کارڈ ہولڈ ر کو 150سے زائد کمرشل دکانوں اور اداروں میں 5 سے 45 فیصد تک رعائت حاصل ہو گی ۔

مالی فوائد کی بروقت بذریعہ بینک اکاؤنٹ ادائیگی، رجسٹرڈ ورکرز کی آن لائن تصدیق، سرکاری و نجی ہسپتالوں سے علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہو گی ۔پنجاب مزدور کارڈ کے ذریعے پنجاب سوشل سیکورٹی کی طرف سے مزدوروں کو دیئے جانے والے14 اقسام کے مالی فوائد حاصل ہوں گے۔

پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کی جانب سے ملنے والی تین مراعات ٹیلنٹ سکالرشپ، ڈیتھ گرانٹ اور میرج گرانٹ بھی اسی کارڈ کے ذریعے ملیں گی۔پیسی کیش بینفٹ موبائل ایپ کے ذریعے موصول ہونے والی درخواستوں کی بذریعہ مزدور کارڈ ادائیگی ممکن ہو گی۔ان بینیفٹس میں عام بیماری کے لئے آخری تنخواہ کا 75 فیصد حصہ 121دن کےلئے میڈیکل گرانٹ کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔

کینسر یا ٹی بی کی صورت میں یہ گرانٹ آخری پوری اجرت جتنی گرانٹ ایک سال تک لے جا سکتی ہے ۔زخمی ہوجانے کی صورت میں آخری اجرت کا سوفیصد چھ مہینے تک لیا جاسکتا ہے۔اسی طرح زچگی ، انتقال ، معذوری ،پینشن وغیرہ کے معاملات بھی اس کارڈ میں شامل ہیں۔

پنجاب مزدور کارڈ کو مستقبل میں صحت سہولت کارڈ، نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم، احساس پروگرام، پنجاب پروٹیکشن اتھارٹی گرانٹس کے علاوہ حکومت کی جانب سے جاری قرضہ سکیموں اور فلاحی اداروں کی جانب سے دیئے جانے والے سماجی فوائد کے ساتھ بھی منسلک کیا جارہا ہے ۔

11 لاکھ مزدوروں کے بینک اکاؤنٹ کھلنے سے فنانشل اینکلوژن (Financial Inclusion) میں پاکستان کی رینکنگ میں نمایاں بہتری آئے گی۔بہرحال مجموعی طور پر مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہے کہ پنجاب میں مزدور کے حالات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔اب میں اس تمام کام کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو نہ دوں تو کیا کروں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔