23 اکتوبر ، 2012
کراچی…کراچی امن و امان کیس کی سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہارعدم اطمینان کیا ہے۔کراچی امن و امان کیس کی سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت ہوئی،جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔دوران سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی نے حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہارعدم اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ اگر رپورٹ جامع ہوتی تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ ہوتی،13ماہ بہت ہوتے ہیں، ہرکسی کوخوش کرنے کی کوشش نہ کریں، شہرمیں قتل و غارت گری بڑھ گئی ہے ، ہر صوبے اورعلاقے کی صورت حال ایک سی نہیں، ہرجگہ علیحدہ قانون بن سکتے ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ لائسنس شدہ اسلحہ رکھنے سے متعلق قانون سازی کیوں نہیں کی گئی،نادرا میں اگرتمام لائسنس کا ڈیٹا درج ہوجاتا تو پتاچلتاکس کے پاس 20،20 لائسنس ہیں،۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کوشش کررہے ہیں جلد قانون سازی کریں گے ۔اِس پر جسٹس امیرہانی نے کہا کہ جب قانون سازی کرنا چاہیں تو آدھے گھنٹے میں سب کام ہوجاتا ہے، ایڈوکیٹ جنرل کا کہناتھا کہ کچھ دوستوں کو اعتراض ہے، صرف سندھ میں ایسا قانون کیوں بنایا جائے جو پورے ملک میں نہیں۔جسٹس خلجی عارف نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہے، جرائم پیشہ افراد کو روکنا حکومت کی ذمے داری ہے،آئی جی سندھ بغیر اسکواڈ کے گاڑی لے کرنکلیں اورروزشہرکاچکرلگائیں،ڈر لگتا ہے تو آئی جی کا عہدہ چھوڑ دیں، جس گھر کا کمانے والا چلاجائے اس کے دکھ کا سوچیں، کسی پولیس والے کواسکواڈ کی ضرورت نہیں،عام لوگوں کوتحفظ دیاجائے ،افسران کے ساتھ اسکواڈ سڑکوں پرعام لوگوں کوگالیاں دیتاہے۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کس قانون کے تحت دبئی کی نمبر پلیٹس یہاں چل رہی ہیں، سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بلاول ہاوس پر روڈ کے درمیان دیوارتعمیر کردی گئی، کتنی سیکیورٹی چاہیے،پوراروڈ گھیرلیا گیا ہے ۔