28 دسمبر ، 2021
میں 2008 سے سیاست کو ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھ رہا ہوں، تب سے لے کر اب تک معاشی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے یہ وقت نہ صرف مشکل ترین ہے بلکہ ہر طرف مایوسی اور بےاُمیدی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے، آپ اِس سے اختلاف کر سکتے ہیں کہ یہ شاید مشکل ترین وقت نہیں ہے لیکن اِس حقیقت کو کسی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ یہ ایک مشکل وقت ہے۔
پاکستان کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور انتظامی لیڈر شپ نے پاکستان کے لیے طویل مدتی منصوبے تشکیل نہیں دیے، اگر کسی حکومت نے ایسا کوئی منصوبہ تشکیل دیا بھی تو اُس میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
اِس کی سب سے آسان مثال یہ ہے کہ عالمی معیشت اور سیاست میں پاکستان کا کردار کبھی بارعب نہیں رہا، ہم کبھی دائیں اور کبھی بائیں،اور کبھی ایک سمت سے اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر دوسری سمت چل پڑتے ہیں۔
اِس کے برعکس وہ ممالک جنہوں نے پہلے سے طے کر رکھا ہے کہ اُنہوں نے کس طرح اور کس شعبے میں اپنےآپ کو منوانا اور دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے، اُنہوں نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اپنے مقاصد بھی حاصل کیے اور پھر سے نئے مقاصد کے حصول میں سرگرداں ہو چکے ہیں۔ چین، جس نے خود کو عالمی کارخانہ بنایا، وہ آج نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہے بلکہ دفاعی لحاظ سے بھی دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ سنگاپور، جس نے خود کو بندرگاہ والا شہر بنانے کا فیصلہ کیا تھا، وہ ایک مضبوط اقتصادی مرکز بننے کے بعد اب جدت کا مرکز بھی بن رہا ہے۔
دبئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کا دورازہ ہے، اُس کے پاس پورے امارات سے کم تیل کے ذخائر تھے، اُس نے اپنے آپ کو ایک کاروباری اور سیاحتی مرکز بنایا اور اب پوری دنیا سے لوگ وہاں سیاحت اور کاروبار کرنے آتے ہیں۔سعودی عرب بھی اب تیل سے ہٹ کر خود کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی کوشش میں ہے اور اِس مقصد کیلئے وہ اپنے ملک میں سیاحت اور کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔
انڈیا میں اقتصادی ترقی کا جو سفر 90 کی دہائی میں شروع ہوا تھا، اُس کی وجہ سے آج وہاں ہر کاروبار کو فروغ مل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ اور چین کے بعد سب سے زیادہ عرب پتیوں کا تعلق انڈیا سے ہے۔ بےشمار اندرونی مسائل کے باوجود اقتصادی ترقی انڈیا کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
اِن ممالک نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہ سب دو چار سال میں ممکن نہیں ہوابلکہ اُنہوں نے اِن کامیابیوں کیلئے ایک طویل اور مستقل سفر طے کیا ہے ،اِس دوران اُن کی حکومتیں بھی تبدیل ہوئیں لیکن اُن کی سمت میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔ وہاں بھی قلیل مدتی مسائل پیدا ہوئے لیکن اُن کی وجہ سے وہ اپنے طویل مدتی مقاصد سے غافل نہیں ہوئے۔
پاکستان میں ہمیشہ اِس کے برعکس ہی ہوتا رہا ہے ، اقتدار کے حصول کی سیاسی و غیر سیاسی لڑائیاں ہمیشہ ایسے مقاصد کے حصول میں آڑے آتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاید ہم نے کبھی طویل مدتی مقاصد کے بارے میں نہیں سوچا۔
اگر کسی حکومت کی ایسی کوئی نیت تھی بھی تو وقتی مسائل نے ایسا گھیرا کہ طویل مدتی منشور تشکیل نہ دیا جا سکا۔ ہمارے ملک کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں جب بھی کوئی سیاسی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو اُسے عوامی مسائل کے حل اور طویل مدتی منصوبوں کی تشکیل سے زیادہ اپنے اقتدار کی حفاظت اور اُسے طول دینے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
2008سے اب تک یہاں کسی سیاسی جماعت نے ایسی کارکردگی نہیں دکھائی یا اُسے ایسا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا، یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ لیکن نتیجہ اِسکا یہ نکلا کہ ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکا۔ ہماری معاشی صورتحال بگڑتی چلی گئی، معاشرے میں اختلاف بڑھتا چلا گیا، عدم برداشت نے فروغ پایا اور سیاسی نفرت کو بھی پذیرائی ملی۔
آج غریب کا برا حال ہے، حکومت کے دلاسوں اور دعوؤں کےباوجود کوئی اُمیدنظر نہیں آ رہی کہ ہم مشکلات کی اِس دلدل سے کبھی نکل پائیں گے، حکومت کی طرف سے بھی اِن مشکلات سے نکالنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ رہی بلکہ اِن مشکلات کو حل کرنے کی بجائے دبایا جا رہا ہے۔ اِن مشکلات کے حل کیلئے صرف تبصرے ہی کئے جاتے ہیں۔
اِس وقت ہمارے مستقبل کے حوالے سے جو سب سے بڑا سوال ہے ، جو میرے ایک ڈینٹسٹ دوست بھی جو پاکستان سے باہر مقیم ہیں،آئے دِن مجھ سے اکثر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اب اِس ملک کا کیا بنے گا؟ میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یہ نہ کسی کو پتا ہے اور نہ ہی پتا لگانا چاہتا ہے، کیونکہ ہم اپنے وقتی مسائل، اختلافات اور اقتدار کی جنگوں میں اِس قدر اُلجھ چکے ہیں کہ ہم ملک کی بہتری اور مستقبل کے بارے میں زبانی جمع خرچ تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر پاتے یا کرنا نہیں چاہتے۔
اِس وقت پاکستان بالخصوص ہماری نوجوان نسل میں مایوسی کی ایک لہر پھیل چکی ہے۔ جن کے پاس اِتنے وسائل ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک جا کررہ سکتے ہیں وہ پاکستان سے نکلتے چلے جا رہے ہیں اور جو وسائل کی کمی کے باعث باہر نہیں جا سکتے وہ مایوسی اور مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں۔
آزادی کے 74برس بعد بھی ہم ایک کے بعد ایک ایسے مسائل کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں جن میں سے اکثر ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اِس لیے اب یہ سوال نہیں ہونا چاہئے کہ وہ پاکستان کب بنے گا جہاں باہر سے لوگ نوکریاں لینے آیا کریں گے بلکہ سوال یہ ہونا چاہئے کہ ایسا پاکستان بنانے کیلئے ہم کب سے کام کرنا شروع کریں گے؟کیونکہ ہم آج تک ایسا کچھ نہیں کر سکے اور لگتا ہے کہ نہ آئندہ کرنا چاہتے ہیں۔