31 جنوری ، 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں اور غیر قانونی الاٹمنٹس پر کرپشن کی انکوائری نہ کرانے پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کےخلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 فروری تک جواب طلب کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پرویز مشرف کا ایک اکاؤنٹ میں 20 لاکھ ڈالرز کا تھا، اس عدالت نے آرڈر پاس کیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف نیب آرڈی نینس کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، اس کے باوجود چیئرمین نیب نے کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس عدالت کا فیصلہ کیا چیلنج ہوا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ فیصلہ چیلنج نہیں ہوا اور وہ حتمی صورت اختیار کر گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہےکہ پرویز مشرف نے اربوں روپے کی زمین خود حاصل کی اور ہزاروں ایکڑ اراضی مختلف کنٹونمنٹس میں غیر قانونی طور پر الاٹ کی، انہوں نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ لاکھوں ڈالرز کے عوض پاکستانی شہریوں کو اغوا کر کے امریکیوں کے حوالے کیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق جنرل نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ غیر ملکی سربراہ مملکت کی جانب سے ایک ارب امریکی ڈالر وصول کیے مگر اسے توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا، پرویز مشرف کے خلاف نیب آرڈی نینس کے تحت کارروائی کیلئے 2013 میں 2اپریل، 10 اپریل اور 20 نومبر کو دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ شکایات بھجوائیں۔
25 اپریل 2013 کو نیب نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کیلئے جی ایچ کیو سے رابطہ کیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے اس خط کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ ریٹائرڈ آرمی افسر کے خلاف نیب آرڈی نینس کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود نیب پرویز مشرف کے خلاف شکایت پر کارروائی نہیں کر رہا لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ عدالتی حکم عدولی پر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے مشرف کے خلاف انکوائری شروع نہ کرنے پرجسٹس ریٹائرڈجاوید اقبال سے 14فروری تک جواب طلب کرلیا۔