02 مارچ ، 2022
ذاتی طور پر میں چاہتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ تبدیلی کے نام پر تباہی لانے والوں کی ہر خواہش پوری ہو جائے اور وہ مستقبل میں دوبارہ اس طرح کی مہم جوئی کے قابل نہ رہیں لیکن قوم سے عمران خان کے خطاب سے مجھے خدشہ پیدا ہو گیا کہ وہ گھبرا گئے ہیں اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ ان کے اقتدار کے دن ختم ہونے کو ہیں۔
میرے اس یقین کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان میں جس حکمران کو اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے، وہ ایک تو میڈیا پر حملہ آور ہوتا ہے اور دوسرا امریکہ کی مدد حاصل کرتا ہے یا پھر ہیرو بننے کے لیے اس کے خلاف بلاضرورت بولنے لگتا ہے۔
بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ میڈیا پر حملہ آور ہوئے اور امریکہ کے خلاف بولنے لگے۔ مشرف اس میڈیا پر حملہ آور ہوئے جسے ابتدائی دنوں میں انہوں نے خود پروان چڑھایا تھا لیکن امریکہ پر حملہ آور ہونے کی بجائے انہوں نے امریکہ کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو نے تو میڈیا میں صرف اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا تھا لیکن خان صاحب محسن بیگ جیسے اپنے محسنوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ اسی طرح بھٹو اگر امریکہ مخالف بن گئے تھے تو ساتھ ہی انہوں نے سفارتی حوالوں سے پاکستان کو ایک مضبوط مقام پر بھی لاکھڑا کیا تھا۔ اس مخالفت کی قیمت صرف ان کو چکانی پڑی نہ کہ پاکستان کو لیکن عمران خان جس طریقے سے امریکہ مخالف ہونے کا تاثر دے رہے ہیں، اس کی قیمت پاکستان کو چکانی پڑرہی ہے۔
ایک اور فرق یہ ہے کہ بھٹو امریکہ کے معاملے میں فیک نیوز سے کام نہیں لے رہے تھے لیکن عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ غلط بیانی اور تاریخی حقائق جھٹلانے کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح بھٹو نے عملاً امریکی مفادات کے منافی اقدامات کیے لیکن عمران خان نے ابھی تک جو کچھ کیا وہ تو امریکہ ہی کی خدمت ہے۔ مثلاً امریکہ کا نمبرون نشانہ اس وقت چین ہے۔ اسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اور سی پیک کی کامیابی گوارا نہیں۔ سی پیک کا برا حشر کرکے عمران خان نے بالواسطہ طور پر امریکہ ہی کی خدمت کی۔ اب وہ 2022میں سی پیک کے جس دوسرے مرحلے کے آغاز کی خوشخبری دے رہے ہیں، اس مرحلے نے 2019کے اوائل میں شروع ہونا تھا لیکن عمران خان کے وزیروں نے مخالفانہ بیانات دے کر، آئی ایم ایف کے ساتھ تفصیلات شیئر کرکے اور سی پیک اتھارٹی کو فٹ بال بناکر چین کو سخت ناراض کیا، جس کے بعد وہ خان کے ساتھ صرف وقت گزار رہے ہیں۔
اسی طرح ہم جیسے طالب علم چیختے رہتے کہ بین الافغان مفاہمت سے قبل امریکیوں کی طالبان سے ڈیل نہ کروائی جائے لیکن عمران خان کی حکومت نے وہ کام کیے بغیر امریکہ کے ساتھ اس کے انخلا میں تعاون کیا جس کی وجہ سے اس وقت افغانستان، پاکستان، چین اور روس وغیرہ کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔
اسی طرح عمران خان ہی نے اپنی حکومت کو امریکہ اور برطانیہ کی شہریت رکھنے والوں سے بھر دیا جنہیں چینی اور روسی بجا طور پر شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی معیشت کی مہار آئی ایم ایف کے ذریعے بالواسطہ طور پر امریکہ کے ہاتھ میں دے دی۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار الگ سے لٹکی ہوئی ہے۔ پاکستان کی گردن خود ہی امریکہ کے ہاتھ میں دے کر اب مخالفانہ بیانات اور روس کے بلاضرورت دوروں کے ذریعے امریکہ کو ناراض کرنا دراصل پاکستان کو مشکلات میں پھنسانے کی دانستہ کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک طرف چین اور روس کو بداعتماد کردیا ہے اور دوسری طرف اب آخری وقت پر امریکہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں، حالانکہ کون نہیں جانتا کہ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جو جشن منائے گئے تھے وہ تو کبھی روسی یا چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد نہیں منائے گئے۔ یوں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ڈرامہ بازی پاکستانی مفادات کی قیمت پر صرف اس لیے کی جارہی ہے کہ کل لوگوں کو بتا سکیں کہ مجھے اس لیے نکالا گیا کہ میں امریکہ کا مخالف تھا۔
حالانکہ جہاں تک امریکہ کی وار آن ٹیرر کی مخالفت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی عمران خان جو کچھ فرمارہے ہیں، وہ فیک نیوز کے سوا کچھ نہیں۔ امریکہ کی وار آن ٹیرر میں شمولیت کا فیصلہ آصف زرداری یا نواز شریف نے نہیں بلکہ پرویز مشرف نے کیا تھا۔وار آن ٹیرر اکتوبر 2001میں شروع ہوئی اور مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ اسی ماہ کیا۔ تب عمران خان نے ان کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی اور یہ دلیل دیتے رہے کہ مشرف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
عمران خان نے قوم سے حالیہ خطاب میں ڈرون حملوں کے لیے آصف علی زرداری کو الزام دیا جو تاریخی طور پر فیک نیوز ہے کیونکہ اجازت بھی مشرف نے دی تھی اور یہ بھی ان کے دور میں طے ہوا تھا کہ ہم زبانی مخالفت کرتے رہیں گے لیکن عملاً کچھ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ زرداری کی حکومت نے کبھی ڈرون حملوں کی مخالفت نہیں کی حالانکہ زبانی کلامی ہر ڈرون حملے کی دفتر خارجہ کی طرف سے مخالفت ہوتی رہی جبکہ سلالہ واقعہ کے بعد زرداری حکومت نے جنرل کیانی کے ایما پر نیٹو کی سپلائی بھی روک دی تھی۔
عمران خان سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ زبانی کلامی مخالفانہ تقریروں کا امریکی کوئی برا نہیں مناتے۔ ان کے ملک کے اندر نوم چومسکی جیسے لوگ رہتے ہیں اور امریکی ریاست نے کبھی ان کی زبان بندی کے لیے پیکا جیسے قوانین نہیں بنائے۔ امریکی عمل کو دیکھتے ہیں کہ کوئی فرد یا حکومت جو کچھ کررہے ہیں وہ امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں۔ امریکہ کو سی پیک کی کامیابی نہیں چاہیے تھی، جس پر کام عملاً روک کر خان نے امریکہ کی خدمت کی۔
امریکہ کو پاکستان کی بدحال اور آئی ایم ایف وغیرہ پر انحصار کرنے والی معیشت چاہیے تھی اور خان نے اسد عمر وغیرہ کے ذریعے امریکہ کی یہ خدمت کر ڈالی۔ امریکہ کو افغانستان کو مستحکم کیے بغیر انخلا چاہیے تھا، جس میں ان کی حکومت نے بھرپور مدد کی۔ پھر ہم کیسے مانیں کہ خان دل سے امریکہ مخالف ہیں۔
خان صاحب! ہر پاکستانی شبلی فراز اور فیصل جاوید نہیں۔ سو وہ سوچتے اور سمجھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ نے پاکستانی نژاد کے مقابلے میں کھڑے گولڈ اسمتھ کے بیٹے جیک اسمتھ کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کینیڈا کی شہریت رکھنے والے طاہر القادری کو کس نے آپ کے دھرنوں میں ساتھ دینے کے لیے بھیجا تھا اور ہم ابھی تک یہ بھی نہیں بھولے کہ آپ کے دھرنوں کا منصوبہ بیجنگ یا ماسکو میں نہیں بلکہ لندن میں بنا تھا، جس کے نتیجے میں چینی صدر کو دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا۔