Time 15 مارچ ، 2022
پاکستان

لاہور کے بے گھر شہری کے دو سوئس بینک اکاؤنٹس میں 4 ارب روپے ہونے کا انکشاف

لاہور کے بے گھر شہری کے دو سوئس بینک اکاؤنٹس میں 4 ارب روپے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

محمد جاوید نامی ایک بے گھر پاکستانی کے سوئس بینک میں دو اکاؤنٹس ہیں جن میں موجود رقم 4 ارب روپے بنتی ہے۔ جاوید کبھی پاکستان سے باہر نہیں گئے اور ان کا کسی پاکستانی بینک میں بھی اکاؤنٹ نہیں ہے جبکہ ان کا نام ایف بی آر کے ٹیکس سسٹم میں بھی موجود نہیں۔

سوئس بینک میں ان کا اکاؤنٹ مصدقہ ہے اور اس صورتحال سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ سوئس بینکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

2003 میں جس وقت ان کے نام سے پہلا کارپوریٹ اکاؤنٹ سوئس بینک میں کھولا گیا تھا، اس وقت ان کی عمر 23 سال تھی اور وہ فیکٹری میں ملازم اور 200 سے 300 روپے روزانہ اجرت کماتے تھے۔

اُس وقت ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں تھا کہ وہ ملک سے باہر جا سکیں۔ جب 2005 میں انہیں پہلا پاسپورٹ ملا اس وقت ان کے اکاؤنٹ میں موجود رقم 3.4 ارب روپے تھی۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ ملائیشیا جا کر محنت مزدوری کرنے کیلئے بنوایا تھا لیکن وہ وہاں جا نہیں سکے کیونکہ ایجنٹ کے مطالبے کے مطابق ان کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپے نہیں تھے۔ اس کے بعد انہوں نے پاسپورٹ کی تجدید بھی نہیں کرائی۔

دوسرا اکاؤنٹ بھی کریڈٹ سوئیز بینک میں کھولا گیا اور 2006 میں اس اکاؤنٹ میں 40 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کرائے گئے۔ یہ انکشافات جرمن بینک کو لیک کیے جانے والے سوئس بینک کے ڈیٹا کا جائزہ لینے پر سامنے آئے ہیں۔ جاوید کیلئے ان اکاؤنٹس کی موجودگی حیران کن بات تھی، انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کی شناخت کس نے استعمال کرکے یہ اکاؤنٹس کھلوائے۔ 

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس یہ اکاؤنٹس ہوتے تو میں یہاں گٹر میں زندگی نہ گزار رہا ہوتا، میں کسی ڈی ایچ اے جیسے کسی بہترین مقام پر رہائش پذیر ہوتا۔

محمد جاوید لاہور میں ایل ڈی اے کی جانب سے مسمار کی جانے والی بستی میں رہتے تھے۔ یہ جھونپڑیاں گلبرگ میں سیوریج لائنوں کے قریب بنی تھیں۔ جاوید اور ان کے اہل خانہ 1947 سے یہاں رہائش پذیر تھے لیکن شہری انتظامیہ نے چار ماہ قبل بھرپور قوت سے اس علاقے کو مسمار کر دیا۔

جاوید کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے والوں نے صرف دس منٹ دیے کہ سامان اٹھا لیں۔ 

جاوید کے بھائی یہاں سے جا چکے ہیں لیکن وہ اپنی والدہ کے ساتھ یہاں رہائش پذیر تھے، انہوں نے کہا کہ وہ یہاں سے جا نہیں سکتے کیونکہ دینے کیلئے کرایہ نہیں ہے۔ 

جاوید کی ماں سے جب ان کے بیٹے کے سوئس اکاؤنٹس کا سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے ٹوٹے گھر  کو دیکھ کر افسردگی کا اظہار کیا اور ان کی آنکھیں چھلک گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس اپنے کھانے کو پیسہ نہ ہو وہ بیرون ملک بینک اکاؤنٹ کیسے کھولے گا۔

دی نیوز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جس جاوید کے نام پر سوئس اکائونٹس کھولے گئے تھے وہ یہی محمد جاوید ہے جو نومبر 1977 میں پیدا ہوا، اس شخص کی شناخت کو کیسے استعمال کرکے یہ اکاؤنٹس کھلوائے گئے، ایک راز ہے۔

اسٹینڈرڈ چارٹرڈ میں کام کرنے والے ایک سابق بینکار، جو اپنے کلائنٹس کے آف شور اکائونٹس سنبھالتے تھے، نے دی نیوز سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شناخت کی چوری بین الاقوامی پرائیوٹ بینکنگ میں ایک عام بات ہے، عموماً یہ کام ریلیشن شپ منیجر اور اپنے فنڈز باہر بینک میں محفوظ کرنے کے خواہاں کلائنٹ کی رضامندی سے ہوتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بجائے کسی اور کا نام استعمال ہو لیکن ٹرانزیکشن کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹ بغیر پاسپورٹ کے کھولنا ممکن نہیں اور یہ معاملہ بھی اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب جاوید یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اکاؤنٹ کھلنے کے دو سال بعد تک اس کے پاس پاسپورٹ تھا ہی نہیں، یہ واضح نہیں کہ اس کی شناخت کو استعمال کرکے کیسے اکاؤنٹ کھولا گیا۔

رابطہ کرنے پر کریڈٹ سوئیز بینک نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

نوٹ: یہ خبر 15 مارچ 2022 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :