17 مارچ ، 2022
کیا یوکرین کےصدرزیلنسکی کااقتدارمجاہدین بچائیں گے؟کم سے کم امریکا کی سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو تویقین ہےکہ یہی وہ موثرحکمت عملی ہے جس سے ماضی میں سوویت یونین کو نیچا دکھایاگیاتھا اور اسی کویوکرین میں دُہراکرمطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس بار مجاہدین آئیں گے کہاں سے؟ انہیں لانے کا ٹھیکہ کسے ملے گا؟ اورانہیں یوکرین لانے کے لیے نظریہ کیا پیش کیاجائےگا؟پاکستان نیوٹرل رہےگا یا کسی کاساتھ دےگا؟
24فروری کو یوکرین پرروس کے حملےکاآغاز ہوتے ہی واضح ہوگیا تھاکہ کیف کسی بھی طورماسکو کا مقابلہ کرنےکی سکت نہیں رکھتا۔ ابھی لڑائی کوایک ماہ بھی نہیں گزرا اور ساڑھے چارکروڑ آبادی والے یوکرین کےتیس لاکھ سے زائد شہری ملک چھوڑ کر جہاں بَن پایا نقل مکانی کرچکےہیں یعنی یہ یورپ میں پناہ گزینوں کا حالیہ سب سےبڑابحران بن چکا ہے۔
چند نمایاں شخصیات اورکچھ توجہ مبذول کرانیوالے افراد کی جانب سےمسلح مزاحمت کی تیاری کی ویڈیوز اجاگر کرکے مغربی میڈیا یہ تاثرپیداکرنےکی کوشش میں تھا کہ یوکرین میں گھمسان کارن پڑےگا۔
مگر جنگ چھِڑی ہے تو یوکرینی اس رفتار سےوطن چھوڑ رہے ہیں کہ بعید نہیں آئندہ چندہفتوں میں یوکرین چھوڑکریورپ کے مختلف ممالک کا رخ کرنیوالے پناہ گزینوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ لاکھ تک جاپہنچے۔
لڑائی میں یوکرین نےاپنے 13ہزار فوجی ہلاک ہونے کا تسلیم کیا ہے اور اسکا دعویٰ ہے کہ روس کے 12 ہزار فوجی مارے گئے ہیں تاہم روس نےاپنے محض 5سوفوجی مارے جانے کی تصدیق کی ہے ۔ہلاک اورزخمی یوکرینی شہریوں کی تعداد 15 سو کے قریب ہے۔ اموات سرکاری اعدادو شمار کے تناسب سےبھی بڑھیں تو تباہ کن حملوں کےبغیربھی روس باآسانی یوکرین کو زیر کر سکتاہے۔
روس کیلیےیوکرین پرقبضہ اتنا ہی آسان ہےتوابتک یہ انجام کوکیوں نہیں پہنچا؟ شاید ایک وجہ یہ ہےکہ یوکرین صدیوں تک روس کا حصہ رہا ہےاور اس کی آبادی کا تقریبا پچیس فیصدحصہ آج بھی روسیوں پرمشتمل ہے ۔یہاں شہروں پر اندھادھندبمباری کامطلب اپنے ہی عزیزوں کو ہلاک کرنا ہے۔ممکن ہےیہی وجہ رہی ہو کہ جو تباہی دنیا نے افغانستان اور عراق پرامریکا اور اتحادیوں کے حملوں کے فوری بعد دیکھی تھی ،وہ تاحال نظرنہیں آئی۔ وہ منظربھی سامنے نہیں آیا جو لبنان کےجنوبی علاقہ قانا پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں دِکھا تھا۔
سوال یہ ہے کہ یوکرین میں اصل جنگ کب چھڑےگی اور اسے لڑے گا کون؟ روس اور یوکرین کےدرمیا ن عارضی جنگ بندی کامطلب توبظاہریہی ہےکہ اصل جنگ چِھڑنے میں ابھی کچھ وقت ہے۔اصل طبل جنگ لوگوں کے انخلا کےبعد بجے گا۔
روسی فوج سےمزاحمت کے لیےڈھائی لاکھ یوکرینی فوج ہے اور چند ہزار کرمنل جنہیں صدر زیلنسکی یہ سوچ کرآزاد کررہےہیں کہ وہ جان دے کر اپنے جرم کا مداوا کریں گے۔ مگر شام کے تجربے سے بخوبی آگاہ مغربی ممالک جانتےہیں کہ یوکرینی فوج اور کرمنلز سے یہ سب کچھ نہیں ہوپائےگا۔اسلیے امریکا اوربرطانیہ میں حکومتی افراد بھی ضرور دے رہے ہیں کہ روسی فوج سےلڑنے کے لیے کُمک اُتارنا پڑےگی۔
یہ کُمک آئے گی کہاں سے؟ ماضی میں سوویت یونین کی گردن جب افغانستان میں پھنسائی گئی تھی تو اس معاملے میں قرعہ پاکستان کے نام نکلا تھا۔ ملک کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں اب یہ تسلیم کرچکی ہیں کہ اُس دور میں امریکی فنڈنگ سے سوویت یونین کیخلاف مختلف ممالک کے لوگوں کو راغب کرکے افغانستان پہنچایاگیاتھا۔ وہ ایک الگ دور تھا جب عرب ممالک سے اسامہ بن لادن جیسے لوگ سوویت یونین کیخلاف بھیجے گئےمگر اسی القاعدہ کےسبب امریکا میں گیارہ ستمبر کے حملے ہوئے۔ شام میں خانہ جنگی کے لیے مختلف یورپی ممالک سےبھی مسلم کمیونٹی کو بھیجے جانےکی حوصلہ افزائی کی گئی مگر صدر بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے میں روس حائل ہوا تو ان دہشتگردوں کو اپنے اپنے ممالک لوٹنے کا چیلنج درپیش ہے۔ان میں سے کئی ممالک اپنے ہی شہریوں کو لینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ خود انکا ملک غیر محفوظ ہونے کا اندیشہ ہے۔
سرکردہ عرب ممالک ترقی پسندی اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہیں تاہم چند ایسے ہیں جو خانہ جنگی جیسی کیفیت سے دوچار ہیں،کیا اس بار قرعہ فال بحران ذدہ عرب ممالک کے نام نکلے گا یا پاکستان پھر آنکھ کا تارہ بنے گا ؟
یوکرین کیخلاف روسی کارروائی کے لمحے صدر پیوٹن سےماسکو میں ملاقات کرنیوالے وزیراعظم عمران خان کئی بارکہہ چکےہیں کہ امریکا نے ماضی میں پاکستان کو استعمال کیا۔انکے بقول انیس سواسی کی دہائی میں امریکی سی آئی اے مدد کرتی رہی اور پاکستان مجاہدین کی تربیت کرتارہا۔پھرامریکا نے ایسے رخ موڑا کہ جیسے طلاق دیدی ہواور بھیانک نتائج پاکستان کو بھگتنا پڑے۔ممکن ہے یہی ذہن میں ہو جو وزیراعظم عمران خان نے بعض حلقوں کی جانب سے اپنےدورہ روس پر نظرثانی کی بات نہیں مانی اور مغربی ممالک اور روس کے درمیان سخت ترین کشیدگی میں بھی اپنا دورہ مکمل کرنے ہی کو بہترجانا۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ روسی فوج کی یوکرین پرچڑھائی روکنے کی قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہوئی تو پاکستان نے بحث میں حصہ لیا مگر قرارداد کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ نہ ڈال کر کسی حد تک غیر جانبداری کا ثبوت بھی دیدیا ۔ یہ اقدام درست اس لیے بھی تھا کیونکہ قرارداد کی حمایت کردی جاتی تو دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑجاتا کہ آخر پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے کیا؟یہ الگ بات ہے کہ ایبسٹین کرنیوالے35 ممالک میں سے بعض نے اپنا ریٹ بڑھانے کےلیےامریکا کے حق میں وو ٹ نہیں دیا۔آخر خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی کمٹ منٹ محض منہ دیکھے سے یا مفت میں تونہیں ہوتی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کچھ بھی ہو ،ہمارے وزیرخارجہ کی کمٹ منٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے حقوق سندھ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے آخری لمحات تک ٹنڈو الہ یار اور ٹنڈو جام کے محاذ پر ڈٹے رہےتھے۔اسی مہم کےدوران چلتے چلتے قریشی صاحب نے یورپی کمیشن کے نائب صدر جوزف بوریل کی وہ ٹیلے فون کال بھی سن لی جس میں انہیں بتایاگیاکہ یوکرین پرروسی چڑھائی کے نتیجے میں ماحول کیا بن رہا ہے اور معیشت کیسے متاثرہوگی؟ خدابھلاکرےوفاقی وزیرعلی زیدی کا جو انہوں نے قریشی صاحب کو سمجھایاکہ یہ انکےاسلام آبادمیں ہونےکاوقت ہے مگرہمارےوزیرخارجہ کے بھی کیا کہنےجواب ملتان میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں۔
قریشی صاحب کی مہم اپنی جگہ ، امریکا اپنے اتحادیوں کی تعداد بڑھاو کی مہم پر ہے۔ پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم کی سینیٹ سے منظور ی بھی اسی لمحے کی گئی ہےورنہ اس ملک میں امریکا برسوں سے ناظم الامور کے زریعے کام چلارہاتھا۔
یہ تونہیں کہا جاسکتا کہ نئے سفیر پاکستان کے نام کوئی قرعہ فال بھی نکالیں گے یا نہیں تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سفیروں کا کام باہمی تعلقات کو نئے اُفق تک لے جانا ہوتا ہےتاکہ قومی مفاد حاصل کیے جاسکیں۔
عمران خان کہہ چکے ہیں کہ نیوٹرل توجانورہوتاہے۔انسان اچھائی کےساتھ کھڑاہوتاہے۔شایدیوکرین کے معاملےپر بھی اچھائی کوچننےکاوقت زیادہ دورنہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔