بلاگ
Time 18 مارچ ، 2022

سیاسی کھیل ’’سپر اوور‘‘میں داخل

 وزیراعظم عمران خان نے عوامی رابطہ مہم کے جلسوں جس کا سلسلہ انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے فیصلے کے بعد شروع کیا تھا اور الیکشن کمیشن کی تنبیہ کے باوجودیہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کے بعد انہوں نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک دن پہلے 27مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 10لاکھ لوگ جمع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔

اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس موقع پر وہ کیا اعلان کرنے والے ہیں ظاہر ہے کہ جس پیمانے پر اس اجتماع پر سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر انتظامات کئے جا رہے ہیں وزیراعظم کوئی معمول کا خطاب تو کریں گے نہیں تو پھر بقول اپوزیشن کے’’یہ سرکس کیوں لگایا جا رہا ہے‘‘اور پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنااللہ کاتو یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اس موقع پر اپنا استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیں‘‘۔

سیاسی اور عوامی سطح پر واقعی ہی یہ موضوع زیر بحث ہے کہ 27 مارچ کو وزیراعظم کیا واقعی کوئی بڑا سرپرائز دینے والے ہیں اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ سرپرائز کس کیلئے ہو گا اپوزیشن کے لئے یا ’’کسی اور کیلئے‘‘اس حوالے سے خدشات، توقعات اور امکانات پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق ا سٹیج کے اطراف اور اجتماع کے مختلف مقامات میں قد آدم ٹی وی اسکرینیں لگانے کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے جہاں سابقہ حکمرانوں اور متحدہ اپوزیشن کے موجودہ قائدین کی مبینہ بدعنوانیوں بالخصوص عدم اعتماد کی تحریک پیش کئے جانے کے عوامل اور محرکات کے بعض وہ دستاویزی شواہد، اس کے کرداروں کے لین دین کے بصری منظر بھی دکھائے جائیں گے ۔

جن کے حکومت اپوزیشن پر الزامات لگاتی ہے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ جن حکومتی ارکان کو بقول ان کے ’’تحفظ کی ضرورت تھی‘‘کیونکہ انہیں حکومتی جماعت سے وابستگی تبدیل کرنے اور ان کے حق میں ووٹ نہ دینے کے باعث بعض خطرات لاحق تھے انہیں سندھ ہاؤس منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ خفیہ ایجنسیاں وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور ان کی ہدایات پر کام کرتی ہیں۔

اس لئے اطلاع ملنے پر پی ٹی آئی کے ان اراکین کی سندھ ہاؤس میں موجودگی اور سرگرمیوں کی ویڈیو بنائیں گئیں اور اس مقصد کیلئے ڈرون کیمرے بھی استعمال کئے گئے اور یہ سارے مناظر 27مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اجتماع کے مختلف مقامات پر آویزاں اسکرینوں کے ذریعے اجتماع کو دکھانے تھے لیکن’’جیو ٹی وی‘‘اس حوالے سے سبقت لے گیا اور حامد میر جو ’’طویل آرام‘‘کےبعد بھرپور توانائیوں کے ساتھ سکرین پر واپس آ گئے ہیں۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے منحرفین کی وہاں موجودگی ہی نہیں بلکہ انٹرویوز کر کے خیالات بھی عوام تک پہنچا دیئے اس طرح سندھ ہاؤس میں حکومت کا آپریشن کرنے کا منصوبہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا گوکہ سندھ ہاؤس میں موجود منحرف حکومتی ارکان کی تعداد میں متضاد اطلاعات اور دعوے ہیں لیکن ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ اپوزیشن کے پاس عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے مرحلے میں 172سے کہیں زیادہ ارکان موجود ہیں اور اب اس بات کا حکومت کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ تحریک پیش ہوئی تو اپوزیشن کی کامیابی یقینی ہے۔

کاش اس حقیقت کا خود وزیراعظم کو بھی یقین آ جائے کہ’’سب اچھا‘‘کی رپورٹ دینے والے وزرا اور مشیروں کی بجائے وہ اپنی خفیہ ایجسنی کی رپورٹوں پرپہلے ہی یقین کر لیتے لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدم اعتماد کی تحریک کے کھیل کا ’’سپر اوور‘‘شروع ہونے والا ہےحکومت کے پاس بال کم ہیں اور جیتنے کیلئے رنز زیادہ درکار ہیں لیکن کپتان کو یقین ہے کہ وہ اس اوور میں چھکے لگا کر میچ جیت لیں گے جو اب مشکل ہی نہیں بلکہ ممکن بھی نظر نہیں آتاجبکہ یقیناًحکومتی وزرااور ارکان اسمبلی بھی ’’بارش کی دعائیں‘‘کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔