22 مارچ ، 2022
سوشل میڈیا پر ملک کے اہم ترین اداروں اور شخصیات کے خلاف منظم مہم کچھ دنوں سے جاری ہے۔ یہ نہایت گھٹیا ہی نہیں بلکہ ملک کو کمزور کرنے کی مذموم و ناپاک کوشش ہے۔ ایسی ناپاک سوچ رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس مذموم مہم کے پیچھے کون ہے، ان لوگوں کے سپورٹرز اور سہولت کار کون ہیں۔ ان کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہوسکے۔ یہ لوگ وطن عزیز کے دشمن ہیں۔ یہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتےہیں۔ درحقیقت یہی لوگ پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار ہیں۔
پاک فوج، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ایسی گھٹیا مہم کو قوم برداشت نہیں کرے گی۔ یہ ناپاک مہم چلانے والوں اور ان کے سرپرستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسکے نتائج بڑے خوفناک ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی اور لغو افواہیں پھیلاتے ہیں۔ کبھی آرمی چیف کے ہٹانے اور کسی اور شخصیت کی تعیناتی تو کبھی ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ بلوچ رجمنٹ سے آرمی چیف بننے تک کیا خدمات اور اس ملک کیلئے کیا قربانیاں پیش کی گئیں۔
اسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی ایک پیشہ ور اور ملک کے محافظ عظیم افسر ہیں، پاک فوج کا ہر افسر محترم اور قابل تکریم ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے صاف کردار چیف جسٹس کے خلاف ہرزہ سرائی کرنیوالے اس ملک میں انصاف اور قوم کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف حکومتی کارروائی نظر نہیں آتی۔ اگر بعض ’’خاص‘‘ لوگوں کے بارے میں کوئی بات کی جاتی ہے تو اس کے لیے فوری طورپر آرڈیننس آجاتے ہیں۔
ٹی وی چینلز اور اخبارات کا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔ ان کے اشتہارات بند کیے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کے خلاف سخت قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن ملکی دفاع کے ضامنوں، اداروں اور ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کے خلاف بولنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اگر اہم ترین اداروں اور شخصیات کے خلاف اخلاقیات کی حدیں عبور کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو اس کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے۔
اہم ترین شخصیات اور اداروں کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف جھوٹ پر مبنی افواہیں پھیلانا ملک کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش اور سازش ہے۔ کیا ہم اسی شاخ کو نہیں کاٹ رہے جس پر ہم بیٹھے ہیں۔ ملکی دفاعی ادارے کے اعلیٰ ترین عہدیدار کے بارے میں افواہیں پھیلانے کا مقصد کیا ہے۔ ایسی کوشش اس سے پہلے ماضی میں بھی کی گئی تھی جس کا نتیجہ قوم نے دیکھ لیا تھا۔ یہ نظر آتا ہے کہ اگر کوئی بھی طفلانہ اور نامناسب حرکت کی گئی تو اس کے نتائج بہت خوفناک ہوں گے۔
مذہب کارڈ کا استعمال بھی ملک میں فساد پھیلانے کے مترادف ہوسکتا ہے۔ کوئی کچھ بھی کرلے ایسی نامناسب کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ ایسی کسی کوشش کے نتائج بہت نقصان دہ ہوں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، ایمل ولی خان، سراج الحق اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سب محب وطن ہیں۔
پاک افواج تو ہے ہی ملک کی محافظ۔ یہ سب نہات محترم ہیں۔ ان سیاسی رہنماؤں کو بھی ایک دوسرے کی اور پاک فوج کے سربراہ، دیگر دفاعی اداروں کے سربراہان اور عدلیہ کی عزت و توقیر کرنی چاہئے۔ پاکستان ہے تو یہ سب عہدے اور عزت و تکریم ہے۔ پاکستان کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کی اہمیت کا کوئی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں سے پوچھے۔
یہ اقتدار اور کرسی عارضی اور چند دنوں کی ہے۔ ہمیشہ کا اقتدار اور بادشاہت تو صرف اللہ عزیز کی ہے۔ اس وقتی اقتدار کے لیے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ حکمرانوں کا حساب بہت سخت ہوگا۔ دنیا کی کیا مثالیں دیں خود اس ملک میں کیسے کیسے حکمران آئے۔ جو اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے تھے لیکن اب ان کے نام تک کسی کو یاد نہیں۔ وہ یا تو اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے یا گمنامی کی اندھیری وادیوں میں گم ہوگئے۔ سیاسی اختلافات کی بھی حدیں ہونی چاہئیں۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات میں تبدیل کرنے کا انجام یقیناً اچھا نہیں ہوگا۔ جہاں تک وزیراعظم کا تعلق ہے۔ لگتا ہے کہ ان کے اس نہج پرپہنچنے میں ان کااپنا قصور نہیں ہے۔ قصور ان کے بعض قریبی لوگوں کا ہے جو غلط مشورے دے کر انکی کشتی ڈبونے پر شروع سے کمربستہ ہیں۔
معلوم نہیں وہ کون ہیں جو اب بھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے سے وزیراعظم کو روک رہے ہیں۔ شاید وہ بھی وزیراعظم کے مخالف ہیں۔ ورنہ پنجاب میں گورننس اور پی ٹی آئی کا جو حال ہوا ہے یہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ترین گروپ، جس میں 17ایم پی ایز ہیں، کا اولین مطالبہ اور شرط ہی یہی ہے کہ عثمان بزدار کو پہلے ہٹایا جائے باقی بات اس کے بعد کریں گے۔
ترین گروپ کے کچھ ارکان نے گزشتہ دنوں عثمان بزدار سے جو ملاقاتیں کی ہیں ان کے بارے میں اب ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ ملاقاتیں کسی کی حمایت یا مخالفت کے لیے نہیں تھیں ان ملاقاتوں کی اور وجوہات تھیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگرمنحرف اراکین کو ووٹ دینے سے روکا جائے یا ان کے ووٹ شمار نہ کئے جائیں یا انہیں نااہل ہی کردیا جائے تو حکومت کو کیا فائدہ ہوگا۔
حکمران جماعت سے ان کی تعداد تو کم ہو ہی گئی منحرف اراکین کے خلاف کسی بھی اقدام سے ان ارکان کو وقتی الجھن ہو گی لیکن حکومت کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ذرائع کے مطابق 25مارچ کو حالات یکسر تبدیل ہوسکتےہیں اور کوئی بڑا سیاسی دھماکہ ہوسکتا ہے۔ جس سے کئی لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔