27 مارچ ، 2022
وزیراعظم عمران خان جس سیاسی حکمت عملی کو اپنا ٹرمپ کارڈ کہہ کربظاہر مطمئن نظر آرہے ہیں، آخر وہ ٹرمپ کارڈ ہےکیا؟ کیا یہ استعمال بھی ہوگا یا پڑے پڑے یہ سکہ بھی کھوٹا ہو جائے گا؟ اور اگر ٹرمپ کارڈ استعمال ہوا تو لڈو کسے ملیں گے؟ یہ سوالات آج ہر شخص کے ذہن میں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان آج شام اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں سیاسی کیرئیر کا اہم ترین خطاب کر رہے ہیں، ممکن ہے یہیں وہ اپنا ٹرمپ کارڈ بھی دکھادیں کیونکہ عمران خان کی سیاسی زندگی میں یہ وہ اوور ہے جس میں ہر گیند پر وکٹ لینا ہے اور 1992ورلڈکپ کی 30ویں سالگرہ پریہ سیاسی کپ جیتنا ہے۔
وزیراعظم کا یہ خطاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ مسلم لیگ ن کی نسبتاً نوجوان قیادت لاہور سے مارچ کی صورت میں اسلام آباد کی جانب بڑھ رہی ہے، لاہور سے گوجرانوالہ تک ن لیگ کا وہ مومینٹم نہ سہی جس کی توقع تھی لیکن گوجرانوالہ کے بعد یہ پوری طاقت سے آگے بڑھے گا۔ مریم نواز کو یقین ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی ٹرمپ کارڈ نہیں، اپنے طورپر وہ حکومت کی فاتحہ خوانی کے لیے اسلام آباد جارہی ہیں۔
عمران خان کا یہ خطاب ایسے لمحے مین ہے جب جمعیت علمائے اسلام اپنےجلسے سے ایک روزپہلے ہی دارالحکومت میں پڑاؤ ڈال چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کو ٹمٹماتا چراغ تصور کیے بیٹھے ہیں، ایک ایساچراغ جو پھونکوں سے بجھایاجاسکتا ہے۔ حکومت کا چراغ گُل کرنے کے لیے پھونک مارے گاکون؟اپوزیشن جو ایک دم سے حرکت میں آئی ہے یا پھروہ سورپھونکیں گےجو کبھی عمران خان کا سہارا تھے؟
عمران خان کے ممکنہ ٹرمپ کارڈ دکھانے سے ایک روزپہلے بلاول بھٹو ان 2کرداروں کےنام لے چکے ہیں جو کبھی عمران خان کاسہارا تھے۔ تیسرے کردار کانام لیتے ہوئے شاید بلاول بھٹو کے بھی پر جلتے ہیں اس لیے وہ بھی کنی کتراگئے۔
عمران خان کے سہاروں کا نام لیں نہ لیں، ن لیگ ہو، جمعیت علماءاسلام یا پیپلزپارٹی تینوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت استعفیٰ دے، تینوں جماعتوں کے رہنما ساتھ ہی یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اگر عمران خان مستعفی نہیں ہوتے توآخر تحریک عدم اعتماد کو کس طرح کامیاب بنا کر بساط الٹ دی جائے۔
اپوزیشن کی چالیں اپنی جگہ، وزیراعظم کو گڑھوانے کے لیے ان کے بعض قریبی دوست بھی کم نہیں، ایک ایسے لمحے جب پورا ملک کسی نہ کسی اپوزیشن جماعت کے جھنڈے تلے حکومت کے خلاف مارچ کر رہا ہے، اتحادی بھی اُکھڑےاُکھڑے ہیں، ایک نادان دوست نے وزیراعظم کو ایمرجنسی لگانے کا نادر مشورہ دے ڈالا ہے۔ خدا کا شکر کہ اس ہنگام میں بھی عمران خان کے اتنے ہوش باقی ہیں کہ یہ قیمتی مشورہ اُنہی صاحب کو سنبھال کے رکھنےکا مشورہ دیدیا ہے۔
توکپتان کی حکمت عملی ہے کیا؟ وزیراعظم آج جلسے میں کیا اہم بات کریں گے؟ کیا ٹرمپ کارڈ یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ مستعفی ہونے کا اعلان کر دے؟ کیا عمران خان یہ کہہ دیں گے کہ تحریک عدم اعتماد کے نام پر منڈی سجا دی گئی ہے، کروڑوں روپے میں ان کے بلے باز اور بولر خریدے جا رہے ہیں، ایسے میں واحد حل یہی ہے کہ نئی ٹیم کےساتھ قبل از وقت الیکشن لڑیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور دغا باز منہ کی کھائیں۔
قبل از وقت الیکشن کا اعلان کرنے کے لیے اس سے زیادہ اہم وقت شاید کوئی اور ہو بھی نہیں۔ ایک وجہ آئی ایم ایف کی تلوار بھی ہے کیونکہ اگلی قسط کے لیے حکومت کے پاس مزید ٹیکس لگانے کے سوا چارہ نہیں، عوام کو یہ کسی طور نہیں سمجھایا جا سکتا کہ امریکا اور برطانیہ میں بھی لوگ مہنگائی کے سبب کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں اس لیے پاکستانی عوام بھی پیٹ پر پتھرباندھ لیں۔
یوکرین کی صورتحال کےسبب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رہنا اب کئی ماہ تک ممکن ہی نہیں، حکومت کو ٹیکس بڑھانا ہی پڑیں گے۔ یعنی وزیراعظم اگر ایوان بالا کے اوپر موجود عالم بالا سے معاملہ کسی طور طے کر بھی لیں ان کی حکومت عوام دوست بجٹ پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔
نتیجہ یہ کہ شفاف ترین الیکشن ہوں تو بھی مہنگائی وہ واحد چیز ہے جو پی ٹی آئی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دے گی۔ اسی مہنگائی کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اپنے مارچ کو عوامی مارچ اور مہنگائی مکاؤ مارچ کا نام دیا تاکہ لوگوں کو سمجھا سکیں کہ وہ اقتدار کے لیے نہیں،عوام کے لیے نکلے ہیں۔
مہنگائی کی چکی تلے پسے عوام کے بارے میں ممکن ہے یہی احساس جاگا ہو کہ وزیراعظم عمران خان نے آج کے اہم ترین جلسے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کیا اور اسے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا نام دیا۔ حد یہ کہ صبح تین بجے تک جا گ کر انہیں قوم کو آڈیو پیغام دینا پڑا کہ خدا کے لیے اسلام آباد آؤ۔
عمران خان کیا استعفیٰ کا اعلان کرنے کے لیے لوگوں کو اسلام آباد میں جمع کر رہے ہیں؟ مشکل یہ ہے کہ اگر وزیراعظم ایسا کرتے ہیں یعنی شہید بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا فائدہ اٹھا سکیں گے یا نہیں۔ اگلے الیکشن کے لیے جو لوگ پچ تیار کر رہے ہیں، اس پر پی ٹی آئی کو کھیلنے کا کتنا موقع مل سکے گا؟
یہ طے ہے کہ قبل از وقت الیکشن کے نتیجے میں عمران خان دوبارہ برسراقتدار آسکیں یا نہیں، وہ ساری عمر یہ ضرور کہہ سکیں گے کہ انہوں نے قوم کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانے کی کوشش کی مگر نظام آڑے آگیا۔
عمران خان تو ہیرو بن جائیں گے مگر کابینہ میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں اُڑ کر کہیں اور بیٹھنے کے لیے مچان نہیں ملےگی۔ جن وزیروں اور مشیروں کی قسمت عمران خان کے دم سے کھلی تھی، ان کا کیا ہوگا؟
استعفیٰ دے کر عوام میں جانے کا ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو شایدیہی وزیر اور مشیرورنہ اس وقت استعفی سے بہتر تُرپ کا پتہ شاید کوئی اور نہیں۔