Time 10 اپریل ، 2022
پاکستان

اصل سرپرائز، کیسا دیا؟

دور کپتانی میں خاندانی تعلقات اور دور  وزارت عظمیٰ میں فیوض سے بہرہ مند عمران خان کا دور منطقی انجام کو پہنچا لیکن وہ جاتے جاتے ایک ایسا سرپرائز بھی دے گئے جس کی مدتوں تک خلش برقرار  رہے گی۔

عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دن وہ حرکت کرنے کی کوشش کی جس پر انہیں احسان فراموش کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کرنے میں وہ کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن اپنی حرکت سے دنیا کو حضرت علی علیہ سلام کایہ قول یاد دلا گئے کہ ' جس پر احسان کرو،اس کے شر سے بچو'۔

باتوں کا مجاہد آخری روز تک یوٹرن بھی لیتا نظر آیا، عمران خان نے من پسندوں کو بُلا کر یقین دلایا کہ قومی اسمبلی کے تاریخی اجلاس میں وہ جا کرجرات دکھائیں گے، پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی اکثریت حالات کی نزاکت بھانپ چکی تھی، عمران خان کی اصلیت پہچان چکی تھی، اس لیے انہوں نے ایوان میں آنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی، جو سادہ لوح یا آخری دن تک قومی اسمبلی کی سیٹوں کا مزہ لینے پہنچے تھے، وہ منتظر رہے کہ عمران خان آئیں تو آخری سیلفی ہو جائے۔ ان کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی کیونکہ عمران خان کا اصل سرپرائز راہ فرار تھا۔

ایک ایسا سرپرائز جس پر قومی اسمبلی میں موجود پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی ہکابکا رہ گئے۔

پیڈز اور ہیلمٹ کے بغیر جو ٹیم میدان میں پہنچی تھی، اسکا واحد آسرا کپتان تھا، جس کے بارے میں ان میں سےاکثر کو یقین تھا کہ وہ ایسی تگڑم لگائے گا کہ بے فیض بھی کسی کے فیض مند ہوجائیں گےاور اچانک نمبر گیم بدل جائے گا مگر کپتان پِچ کی حالت بھانپ چکا تھا، اس لیے وہ ایسی چالوں میں مصروف تھا کہ سب کچھ تلپٹ کردے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کے قریب ترین سمجھے جانیوالے وزرا کو بھی سرپرائز ہی ملا، وزرا جب کپتان کو ایوان میں لانے کے لیے وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اب اس گھر میں کوئی نہیں رہتا، جو یہاں لایا گیا تھا، وہ اب گھر پہنچ کر شیرو شیرو کر رہا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ عمران خان کی غلطی کیا تھی؟ انگریزی کا محاورہ ہے کہ فرسٹ ڈیزرو دین ڈیزائر یعنی اگر کسی شے کے خواہشمند ہو تو پہلے اسے لینے کےمستحق بنو، عمران خان اپنی25سال کی سیاسی زندگی میں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ سیاست دان بن گئے ہیں۔

کسی کے فیض سے شجر ایسا سایہ دار ہوا کہ وزیراعظم بھی بنادیےگئے۔ خوش آمدیوں کے ٹولے نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ مُدبر ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اتنی اونچی ہواؤں میں آگئے کہ سامنےکی چیزیں بھی نظرسے اوجھل ہوگئیں۔

مصنوعی طریقے سے قد اونچا کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں، ایک یہ بھی کہ اتنے بڑے کو گالی دو کہ لوگ حیرت ذدہ رہ جائیں اور دل ہی دل میں تصور کرلیں کہ گالی دینے والا شخص ہی درست بول رہا ہے اوریہی نجات دہندہ ہے۔

ہمارے ملک میں چونکہ سیاستدانوں کی کرپشن پرجو چاہے بول دیاجائے، لکھ دیا جائے کوئی پوچھنےوالا نہیں، اس لیے عمران خان نے اسے اپنا بہترین ہتھیار بنایا۔ عمران خان نے یوں توکئی کو چیلنج کیا مگر ان کا اصل مقابلہ شریف برادران اور زرداری سے رہا، ہاتھ ان کے کوئی بھی نہ آیا۔

نوازشریف کو ستانا چاہتے تھے وہ سکون سے لندن میں رہے اور حکومت ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکی،  چالوں کے ماہر آصف زرداری کی تو وہ سیاست میں پیروں کی خاک بھی نہ تھے اس لیے عمران خان سرپٹکتےرہے مگر آصف زرداری ملک میں ہی رہے اور سینے پر مونگ دلتے رہے۔

شاید جاوید ہاشمی نے سہی کہا تھاکہ آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے سیاست میں پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے، عمران خان کھلنڈرا تھے، انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب زرداری نے گھیرا تنگ کرکے ان کے پیروں سے زمین کھینچ لی، یہ بُردباری تھی کہ جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر میڈل لینے کاوقت آیا تو اپنی جگہ بلاول کو قومی اسمبلی میں بولنے کا موقع دیا۔

عمران خان کی غلطیاں اپنی جگہ، قوم پر ان کے احسانات کی بھی طویل فہرست ہے۔ سیاسی لحاظ سے انہوں نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نئی قیادت کو ابھرنےکے لیے کھلا میدان دیا۔ ان کے دور میں مریم نواز نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، میاں شہبازشریف کی موجودگی میں اپنی جگہ بنائی اور جرات سے وہ بات کہنا سیکھی جسے کہنے سے معاملہ فہم شہباز شریف کتراتے رہے ہیں۔

عمران خان نے بلاول بھٹو کو بے نظیربھٹو کی دانش مندی اور آصف زرداری کے شاطرذہن کا انضمام پیش کرنے کا موقع بھی دیا، یہ بلاول بھٹو ہی تھے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کی سب سے پہلے وکالت کی تھی اور اسی نکتہ پر آخری لمحے تک قائم رہے، ن لیگ جو ابتدا میں تحریک عدم اعتماد کی تجویز کا مذاق اڑاکرپیپلزپارٹی پر عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا الزام لگارہی تھی، آخری مہینوں میں بلاول کی بات ماننے پرمجبور ہوئی، یہ تحریک عدم اعتمادہی تھی جس کے زریعے اپوزیشن کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

سوال یہ بھی کہ کیا عمران خان کی حکومت کسی طرح بچ سکتی تھی؟ گھمنڈی عمران خان 25 برسوں میں اپنی سیاسی تربیت کرتے تو ایسا ممکن تھا۔

تحریک عدم اعتماد کا ماحول بنتا دیکھ کر وہ تمام پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ مستعفی ہوسکتے تھے، اتحادی بھی اس وقت اس قدرنالاں نہیں تھے، پونے دو سو اراکین مستعفی ہوتے تو قبل ازوقت الیکشن ہی واحد حل ہوتا۔ عمران خان کا جادو کسی حد تک قائم تھا، دوبارہ انتخاب ممکن تھا مگر کہتےہیں

غرور کا سرنیچا۔

عمران خان غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے، آخر میں امریکی سازش کا ڈھونگ رچا دیا۔ قوم کی یادداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ بھول جائے کہ تحریک عدم اعتماد کی پہلی بات کب ہوئی تھی۔ یہ بات تو ایک اہم عہدے پر تعیناتی سے اختلاف کے بھی مہینوں پہلے کی گئی تھی، اس وقت تو نہ یوکرین کا معاملہ تھا نہ سفیر سے امریکی اہلکار کی متنازع بات چیت کا۔

جو ہوا سو ہوا، عمران خان کا مقدر کیا ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ پارٹی اِز اوور۔ اب یہ پارٹی سادہ اکثریت کے خواب دیکھ سکتی ہے ،انہیں حقیقت کا روپ بنتا نہیں دیکھ پائے گی۔کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا، اسلیے لانے والوں کو مومن سمجھنا معقول ہوگا۔

ایک ایسی صورت حال میں کہ عمران خان اس شکست کا کسی سے بدلہ نہ لے سکیں، ڈر یہ ہے کہ نزلہ کسی کمزور پر نہ گرجائے۔

مزید خبریں :