09 نومبر ، 2012
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی جریدے ’اٹلانٹک‘ نے پاکستا ن میں عدلیہ اور فوج کے درمیان حالیہ بیانات پر پیدا ہونے والی صورت حال پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں جج صاحبا ن اور فوجی جرنیلز کے اختیارات کی کئی ماہ سے جاری پس پردہ کس مکش 5نومبر کو عوام کے سامنے آگئی۔ بیانات سے پہلی بار واضح ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے اختیارارت کے معاملے پر اتفاق نہیں کرتے۔ تشویش ناک پہلو یہ کہ ایک دوسرے کے انفرادی کارکردگی کے معاملات کو بھی واشگاف کردیا گیا۔ دہائیوں سے حکمرانی کرنے والوں کو تبدیلی کا سامنا ہے۔فوج کی ہائی کمان میں بلوچستان کا کیس بھی ناگواری کا سبب ہے۔اختلافی بیانات سے واضح ہے کہ ادارے بتدریج اپنے آئینی حدود او ر کردار کو اپنا رہے ہیں۔ 5نومبر کو پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی باہمی تنقید کے ساتھ عوام میں چلے گئے۔ دونوں شخصیات کے سخت ترین بیانات سے پہلی بار واضح ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے اداروں کے اختیارارت اور کردار کے تعین کے معاملے میں اتفاق نہیں کرتے جن اداروں کے وہ سربراہ ہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان معاملات کو بھی واشگاف کردیا جو ایک دوسرے کے انفرادی کارکردگی کے متعلق تھے۔چیف جسٹس نے اپنے ادارے کی سپر میسی کو سب پر فوقیت دی۔ اسی دن چیف جسٹس کے ان بیانات کو آرمی چیف نے یہ کہہ کر اختلاف کیا کہ کسی فرد یا ادارے کو یہ حق نہیں کہ قومی مفاد کے متعلق وہ حتمی فیصلہ کرے۔جریدے نے تجزیہ کا ر کے حوالے سے لکھا کہ پاکستان میں تبدیلی کی ہوا چل نکلی ہے اور دہائیوں سے جو حکمرانی کرتے آرہے تھے انہیں اس تبدیلی کا سامنا ہے اب اس ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ فوج اور عدلیہ میں تناوٴ کی صورت گزشتہ ماہ اس وقت پیدا ہوئی جب عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے فیصلہ دیا کہ متعلقہ حکام سابق فوجی سربراہ اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف کارروائی کریں۔1990کے انتخابات میں ان پر دھندلی اور سیاست دانوں میں پیسہ تقسیم کے الزامات ہیں۔جریدے نے لکھا کہ کہ ان دو کے علاوہ چھ مزید جرنیلز کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ فوج کی ہائی کمان میں بلوچستان کا کیس بھی ناگواری کا سبب ہے۔ 5نومبر کے آرمی چیف کے بیان سے واضح ہو تا ہے کہ وہ فوج کے روایتی کردار اور امیج کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔جریدے نے سیاسیات کے پروفیسر کے حوالے سے لکھا کہ کہ ان متنازع بیانات سے انہیں امید نظر آتی ہے ،اس طرح کے عوامی سطح پر اتفاق نہ کرنے کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ادارے بتدریج اپنے آئینی حدود او ر کردار کو اپنا رہے ہیں۔ اور ہمیں ان سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ وقت کے ساتھ ساتھ اداروں میں طاقت کا توازن پیدا کردیں گے۔اس وقت جو ہمیں اچھا دکھائی نہیں دے رہا،لیکن کچھ عرصے کے بعد اس سے مثبت راستے نکلیں گے۔