12 مئی ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نجی ٹی وی اے آر وائی نیوزکے اینکر پرسن ارشد شریف سمیت صحافیوں کو ہراساں نہ کرنے کے حکم امتناع میں 26 جولائی تک توسیع کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن ارشد شریف کو ہراساں کرنےکے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ کوئی جرم کرے تو اس کے خلاف کارروائی نہ کریں، مناسب یہ ہو گا کہ ایف آئی اے کسی صحافی کے خلاف کارروائی سے قبل اس کے ادارے اور جرنلسٹ باڈی پی ایف یو جے کو بھی کیس سے متعلق آگاہ کرے۔
ایف آئی اے نے یقین دہانی کرائی کہ عدالت میں جمع کرائے گئے ایس او پیز پر عمل درآمد کیا جائےگا۔
وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نےکہا کہ ایف آئی اے کا ایک کاؤنٹر ٹیررازم ونگ بھی کام کر رہا ہے جو صحافیوں اور پولیٹیکل ورکرز کو ہراساں کرتا ہے اور غداری کے الزام بھی لگائے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نےکہا کہ کیا بہتر نہیں ہےکہ پولیٹیکل لیڈرشپ غداری جیسے الفاظ کا استعمال بند کر دے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری سے کہا آپ کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں ہوا، آپ پارلیمنٹ میں مل کر بیٹھیں اور ان مسائل کو حل کریں۔
جس پر فواد چوہدری نے کہا ہم اس مقبوضہ اسمبلی میں جا کر کیا کریں گے؟ الیکشن کے بعد آئیں گے اور قانون سازی کریں گے۔
صحافی رہنما افضل بٹ نےکہا یہ اپنی حکومت میں جس طرح کے قوانین لے کر آ رہے تھے وہ آ جاتے تو پھر اللہ ہی حافظ تھا۔
چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرکےکہا کہ آپ اس طرح کریں کہ 9 اپریل کے چار گھنٹے کی ٹرانسمیشن دیکھیں، اس دن تو تجزیہ کاروں نے مارشل لا ہی نافذکردیا تھا، میڈیا آرمی کی گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر دکھا رہا تھا، میں گھر بیٹھا تھا اور خبر چلی کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ارشد شریف اب مطمئن ہیں تو ان کی پٹیشن نمٹا دیتے ہیں، صحافی افضل بٹ نےکہا ان کو ابھی خطرہ ہےکہ کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پٹیشن نمٹانےکے بجائے پینڈنگ رکھی جائے تاکہ ہماری بھی تسلی رہے۔
صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار نےکہا ہر حکومت ایف آئی اے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہ گورنمنٹ بھی کرے گی، عدالت نے کیس کی سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی۔