12 نومبر ، 2012
اسلام آباد…سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو آج ساڑھے 11 بجے طلب کرلیا۔عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ حسین حقانی کوسیکیورٹی خدشات ہیں۔اِس سے قبل سماعت کے دورا ن چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنا چاہیے تھی،حسین حقانی کو عدالت سے حاضری کااستثنیٰ نہیں دیا گیا تھا،درخواست گزاروں کو 5 دن میں اعتراض وجواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی،اِس پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حقانی کے خط کی کاپی سماعت کے بعدمعلومات کیلئے بیرسٹرظفر اللہ کو دکھائی تھی،جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ خط وکیل اورموکل کیے درمیان آپس کی گفتگوہے،اِس کی کیاقانونی حیثیت ہے۔عاصمہ جہانگیرنے بتایا کہ حقانی کے پیش نہ ہونے کی وجوہا ت اور میموکمیشن پر اعتراضات جمع کرادیئے تھے،اِس پر بیرسٹر ظفر اللہ نے 12 جولائی کو حقانی کا خط پیش کیا، جس میں انھوں نے پیشی سے انکارکردیاتھا، اِس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ خط عدالت نے واپس کردیا تھا۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میموکمیشن نے حسین حقانی کو غدار قرار دیا، کیا وہ یہاں آکر مر جائیں،اِس پر جسٹس تصدق حسین نے کہاکہ کمیشن نے رائے دی، جس سے ابھی تک عدالت نے اتفاق نہیں کیا،عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ حسین حقانی کوسیکیورٹی خدشات ہیں ، اٹارنی جنرل پاکستان آمد پر حقانی کی سیکیورٹی اور واپسی اجازت کی یقین دہانی کرائیں،حسین حقانی کو پاکستان میں جان کا خطرہ ہے،حسین حقانی کو یہاں بلانا ، اُن کے ساتھ ایک چال ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ یہ یقین دہانی اٹارنی جنرل پہلے ہی کرا چکے ہیں ،عدالت نے کبھی نہیں کہا کہ حقانی ہمیشہ کیلئے یہاں آکر رکیں،حقانی اپنی آمد، قیام،واپسی تک تحفظ کیلئے سیکریٹری داخلہ کو درخواست دے سکتے ہیں،حکومت کو حسین حقانی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کہیں گے۔اِس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا آپ حسین حقانی کو تحفظ کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں،اِس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بطور اٹارنی جنرل یہ میرا کام نہیں،حکومت سے بات ہوسکتی ہے،اِس پرسپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو آج ساڑھے 11 بجے طلب کرلیا۔