03 جون ، 2022
کراچی میں ترقی محض کنکریٹ کا جال بچھانے تک محدود ہوگئی،شدید موسموں کو سہتے کراچی میں ماحولیات کا تحفظ سرکاری اداروں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، ماہرین نے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو ایک غیر مؤثر ادارہ قرار دے دیا۔
ماحولیاتی تجزیے کی رپورٹ میں اکھاڑے جانے والے درختوں کی صحیح تعداد اوران کی جگہ لگائے جانے والے پودوں کیلئے مختص زمین کے بارے میں تفصیلات سے عوام کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔
گرین لائن بس منصوبے میں ماہرین کے مطابق 16 ہزار سے زائد درخت کاٹے گئے لیکن ان کی جگہ بہت کم پودے لگائے گئے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن یہ دنیا کے بدترین ٹرانسپورٹ سسٹم کے باٰعث بھی جانا جا تا ہے، ایسے میں گرین لائن اور ہو یا ریڈ لائن، ان منصوبوں کو ٹرانسپورٹ مسائل کا حل قرار دیا جارہا ہے لیکن یہ شہر ان منصوبوں کی بڑی قیمت درختوں کی قربانی دے کر ادا کررہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہم موسمیاتی تبدیلی کے اس دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ایک پودا اور ایک درخت بھی قیمتی ہے۔
گرین لائن منصوبے کے لیے ساڑھے 16ہزار سے زائد درختوں کی قربانی کو تعمیراتی کمپنی نے مسترد کردیا ہے۔ اس حوالے سے جنرل منیجر آپریشنز گرین لائن پروجیکٹ عبدالعزیز کہتے ہیں کہ 16 ہزار کی تعداد غلط ہے، 3 ہزار درخت نکالے اور 4 ہزار لگائے گئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک صحت مند درخت 10 سے زائد ائیر کنڈیشنر کے برابر ٹھنڈک فراہم کرتا ہے۔
کسی بھی تعمیراتی منصوبے میں درخت اکھاڑنے سے پہلے ہی متبادل جگہوں پر شجرکاری کا عمل شروع کردیا جائے تو ماحولیاتی نظام میں بگاڑ کو روکا جاسکتا ہے۔