Time 21 جون ، 2022
بلاگ

موجودہ بحرانی کیفیت کا حل

یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی غیرجمہوری روش اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے جائز و ناجائز حربوں کے استعمال کی حیثیت عوام کی نظروں میں ناجائز قرار پا چکی ہے۔عوام کے بڑے حصے کی نظر میں عمران خان کاہٹایا جانا اور جمہوری حقوق کی بحالی ہم معانی ہو چکے ہیں لیکن آج پاکستانی سیاست نے جو موڑ لیا ہے اس پر عوام ایک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے مفاد میں یا کسی اور کے اندرونی معاملات کی وجہ سے ہوا ہے۔

ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، کاروبار غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے ۔نیپرا نے اپریل کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے نناوے پیسے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا ہے، ڈالر بھی روزبروز مہنگا ہورہا ہے، اسٹاک میں شدید مندی دیکھنے میں آرہی ہے ، سونے اور چاندی حتی کہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیںبھی غیر مستحکم ہو گئی ہیں ۔

تیل اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ ناگزیر ہے اور یہ معاہدہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں نا گزیر حد تک اضافے کے بغیر ممکن نہیں ۔یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں جو بجلی کے بل کی لاگت میں بھی مزید اضافے کا سبب ہوں گی۔یہ معاشی حالات سماجی انحطاط کی علامتیں ہیں ۔آج پاکستانی سماج جس مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے ، وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ یہاں غربت ، بیماری ، ناخواندگی ، ناانصافی ، جمہورت اور وفاقیت کے بحران کے اسباب کی تفتیش اور تحقیق ایسے افراد پر مشتمل ادارہ کرے جس کی ساکھ پر نہ صرف پوری قوم کو اعتماد ہو بلکہ یہ ادارہ یا فورم آئین کی پاسداری بھی کرتا ہو۔ 

ضروری ہے کہ حکومتِ وقت ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو جلد از جلد ایک فورم پر اکٹھا کرے تاکہ اس قوم کی بقا کیلئے دور رس فیصلے کیے جائیں۔ثانوی مسئلوں کے حل کی بجائے فوری معاشی اور دور رس سیاسی مسائل کے حل تجویز کیے جائیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس معاشی بحران سے بخوبی واقف ہیں اورملک کو مزید معاشی ابتری سے بچانے کیلئے غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرکے دفاعی بجٹ میں نمایاں کمی کرنے کیلئے تیار ہوں گی۔

البتہ صرف دفاعی اخراجات میں کمی کرنے سے موجودہ معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکتے ، اس لیے اس اعلیٰ سطحی فورم کو چاہیے کہ وہ اشرافیہ کے پرتعیش اخراجات پر قدغن لگائے۔تمام ججوں، سرکاری اور سیکورٹی افسران پر پابندی لگائی جائے کہ سب 1000سی سی سے نیچے کی گاڑی استعمال کریں اور پٹرول کے پیسے اپنی جیب سے ادا کریں۔ ملک میں ہزار سی سی سے اوپرکی گاڑیوں کی درآمد اور استعمال پر مکمل پابندی لگانے کا اعلان کیا جائے ۔ تما م سرکاری دفاتر اور ججوں کے چیمبر ز میں فی الفور اے سی کا استعمال بند کیا جائے ۔ تمام سرکاری عمارتوں، عدالتوں، یونیورسٹیوں اور سیکورٹی کے اداروں کی عمارتوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے۔ پرائیوٹ سیکٹر میں چلنے والی اور نئی بننے والی تمام صنعتوں اور بلڈنگز کو سولرپر شفٹ کیا جائے اور اس کیلئے حکومت بغیرسود کے قرض فراہم کرے بلکہ ایسی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی دے۔

صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال اور انسانی زندگی کو بچانے والی ادویات کے علاوہ ہر قسم کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔ یہ فورم روس اور ایران سے تیل اور توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول کیلئے نہ صرف فوری منظوری دے بلکہ ایران اور بھارت کے درمیان پائپ لائن جو پاکستان سے گزر نی ہے، اسکی بھی فوری طورپر منظوری دے۔بھارت کافی عرصہ سے روس سے تیل خریدرہا ہے اس لیے پاکستا ن کو بھی چاہیے کہ وہ روسی تیل کیلئے جلد از جلد ریفائنریز بنائے۔

اس فورم میں معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور وفاق کو مضبوط کرنے کیلئے اہم فیصلے کیے جائیں جس میں سب سے اہم مسئلہ گم شدہ افراد کا مسئلہ ہے۔اس معاشی ابتری کے ماحول میں پاکستانی سماج اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ بلوچستان سے گم شدہ افرادکی بازیابی کیلئے کسی سیاسی تحریک کا سامنا کرے۔اس لیے یہ فورم گم شدہ افراد کی فوری طور پر بازیابی کا حکم دے اور جو لوگ کسی جرم میں ملوث پائے جائیں ، انہیں فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔

آج اکیسویں صدی میں دنیا کا کوئی ملک جمہوری کلچر کے تمام تقاضوں کو پورا کیے بغیر دنیا کے نہ تو دوسرے ممالک سے تعلقات رکھ سکتا اور نہ ہی اپنے عوام کیلئے ترقی، انصاف اور مساوات کی اقدار کو فروغ دے سکتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ یہ فورم تمام ریاستی اداروں سے یہ تجویز منظور کروائے کہ وہ پاکستان کے بہتر مستقبل اور ترقی کیلئے ملکی سیاست سے دوررہیں اور اپنے ادارے کو مکمل طور پر پروفیشنل طریقے سےاپنے فرائض سے منسلک کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔