وطن عزیز دوراہے پر!

ایک منحوس فقرہ، کئی برس سے ذہن و دہن پر، کالموں ، ٹی وی پروگراموں کا حصہ، ’’سانحہ 16 دسمبر 1971ء ایک بار پھراپنے آپ کو دہرانے کو‘‘۔ مقصد پیشگی خبردار کرنا تھا۔ 12مارچ 2018ء (روزنامہ جنگ) اپنے کالم کا حوالہ،مستقبل کا سیاسی زائچہ ہی تو تھا۔حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔

آخری پیرادہرانےکو ،’’نواز شریف اگلے چند برسوں میں اقتدار سے باہر مگرناقابلِ تسخیربن جائیں گے۔ایسے مضبوط و مقبول کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے۔ نواز شریف کے 2018 میں اقتدار میں نہ آنے کا ایک اور فائدہ بھی، 70 سال سے بگڑے سول ملٹری تعلقات کو حالات کے جبر اور نامساعد ملکی حالات، ہمیشہ کیلئے ڈھنگ پر لے آئیں گے۔ 

نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ2023یااس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود ان کے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے توبچنا ہے جب کہ1971میں عبرتناک شکست کے بعد صدر یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کرہی پیش کیا تھا۔ن لیگ کو جب دوبارہ 2023 میں اقتدار ملے گا، تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہوچکا ہوگا۔حالات کا تقاضا بھی یہی رہنا ہے۔شرط کڑی،اس کھینچا تانی میں،پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنیوالے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں۔‘‘

کم و بیش 2019ء کے کسی مہینے میں نواز شریف صاحب سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات ہوئی۔ جھٹ پٹ دو باتیں کہہ ڈالیں، ’’ میاں صاحب! بیٹی کے ساتھ جیل کی مصیبت جھیل کر آپ نے بہت بڑی قربانی دی ہے، دو گزارشات پلو سے باندھنا ہونگی۔آپکو تکلیف پہنچانے اور زِچ کرنے کے اصل محرک و ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ،عمران خان کا کردار ثانوی ہے۔خاطر جمع، آپ کو زیادہ عرصہ جیل میں نہیں رکھ پائیں گے، آپ نے مفاہمت نہیں کرنی ‘‘۔دوسری بات،’’دو سال بعد عمران خان پر یہی وقت آیا چاہتا ہے، برائے مہربانی عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے تعاون نہیں کرنا‘‘۔

میری بدقسمتی 2018ء کاکالم من و عن پورا بیٹھنے کے قریب ہی تھا کہ ن لیگ عمران خان کی سیاست کو پروان چڑھا گئی۔جہاں حالات کے جبر اور نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کی ریشہ دوانیوں،کج فہمی اور مفادات نے نواز شریف کو مرکزی دھارے کی سیاست سے باہر کر دیا وہاں عمران خان کو مرکزی دھارے کی سیاست کا گرائونڈفراہم کیا۔ گوجرانوالہ میں نواز شریف نے جب تقریرمیں اصل ہدف کا تعین کیا تو عمران کو فقط مہرہ قرار دیا، تحریک انصاف ڈنکے کی چوٹ پر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھی بھی۔ عمران خان کی اکڑ آسمانوں پر، بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا،وگرنہ عمران خان کی سیاسی آبرو کیا تھی۔ موصوف کواقتدار ملا توساری طاقت ایک صفحہ کی پروموشن، ستائش و توصیف میں صرف رکھی۔یہی عوامل2021ء کے اختتام سے پہلے ہی تحریک انصاف کوذلت و رسوائی اورغیر مقبولیت کی طرف دھکیل گئے۔

دوسری طرف نوازشریف کی میڈیا تک رسائی نہیں، تاحیات نااہل، پارٹی صدارت سے معزول، مریم نواز چپ، سب کچھ کے باوجود سیاست کا محور و مرکز،نواز شریف،سیاست عروج پر۔ صد افسوس! نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا،کہ تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کی ہمنوا بن گئی اور آج عمران خان کے گناہوں کا ٹوکرا سر پر، اپنے ہی بیانیے کی نفی میں سربکفن۔

ہمیشہ سے ادراک تھا،2022ء اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی لڑائی کا سال، پہلی بار یہ لڑائی اسٹیبلشمنٹ نے بنفسِ نفیس لڑنی تھی (2018ء کالم اسی کی تو پیشگوئی تھی)، سیاسی حکومت /اسٹیبلشمنٹ کا قضیہ اپنے انجام کو پہنچنا تھا۔یقینی طور پر اس لڑائی میں ایک ’’ تیتر‘‘کی چونچ اور دوسرے ’’ تیتر‘‘ کی دْم نے گم ہونا تھا۔حماقت کی کون سی قسم، مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ ہر صورت میں عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے پر تیار ہوگیا۔جبکہ اسٹیبلشمنٹ ہر صورت یہ لڑائی خود لڑنے کی بجائے بذریعہ سیاستدان لڑنے پر بضد تھی۔اپنے تئیں مسلم لیگ ن، جہاں جہاں رسائی ممکن، منت ترلے، ہاتھ جوڑے کہ اس لڑائی کو اپنے گلے نہ ڈالے،اْڑتے تیر کو بغل میں نہ لے۔شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ کو اپنے ساتھ متفق پایا۔

پہلے درجے کی قیادت کے پاس دلائل کا انبوہ،عمران خان نے ’’ فلاں ‘‘کو آرمی چیف بنا دیا،موجودہ چیف کو ہٹا دیا،اگلی دہائی عمران کے اقتدار کی پکی۔ ہماری آخری عْمر جیلوں میں۔مسلم لیگی قائدین کے دلائل کے پیچھے عوامل ملاحظہExpediency،ذاتی کمزوریاں، مفادات، قیدو بندکا ڈر۔حتیٰ کہ مریم نواز کے خلاف پارٹی صفوں میں پرو پیگنڈہ عام کہ محترمہ کی تصادم اور ٹکراؤپالیسی مسلم لیگ کولے ڈوبے گی۔

عمران خان اقتدار میں آئے تو پہلے دن سے میری ایک ہی تکرار،ایک صفحہ نہیں رہنا، صفحہ پھٹ جائے گا۔سب منافقت ہے، ٹکراؤ کا انتظار کریں۔ اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا کہ عمران ایسی جنگ دلیری سے لڑے گا۔ ماضی قریب و بعید کے سارے ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ بھلا دے گی۔ وہی ہوا جو معلوم تھا ، سہولت اقتدار سے محروم ہوتے ہی انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر کے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو للکارا۔ دیدہ دلیری ایسی کہ نیوٹرل ہونا جرم ٹھہرا، سپہ سالار کو غدار کہا، جھوٹ اور پینترے بدلنے میں بھی مثالیں قائم کیں، ابھی تک نشانہ چوکا نہیں۔ 

چند چیزیں حتمی،2014ء سے تخلیق کیا گیا وطنی سیاسی عدم استحکام ،نئی آب و تاب اور شان کیساتھ شتربے مْہار،لق دق صحرا میں سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ نواز شریف کی سیاست ہویا اسٹیبلشمنٹ یا دیگر ادارے، سارے مدافعانہ ،معذرت خواہانہ، عمران خان کی جارحیت کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔ آج کی تاریخ میں عمران خان کے ٹارگٹ تین، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بمع امریکہ شانہ بشانہ، معیشت جس گڑھے میں ہے اس کو مزید گہرا کرنا، پاکستانی فوج کی چولیں ہلانا،پہلی دو کامیابیوں کے بعد ایٹمی پروگرام ناکارہ بنانا، کیا عمران خان اپنا مقصد پورا کر پائے گا؟ ایسے میں بدقسمتی کہ میاں نوازشریف کولندن بیٹھ کر وطن عزیز کی شکست و ریخت کو بے بسی سے دیکھنا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔