عمران خان کی ’’چومکھی لڑائی‘‘

دورائے نہیں، عمران خان کے ترکش کے سارے تیر نشانے پر، امریکی ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔قاسم سوری کے مذہبی ٹچ سے لے کر عسکری قیادت پر غداری کے الزامات،جھوٹ اورغلط بیانی کی بوچھاڑ ،بظاہرضمنی انتخابی مُہم اصلاًکئی محاذوں پر حملے،آج امریکہ اور بھارت کے ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے۔

پہلی ترجیح ، پاکستان کی معیشت کو گراوٹ کی انتہائی سطح تک پہنچانا، پاکستان کو سری لنکا بنانے پر اصرار۔23جنوری 2022کی نشری تقریر ’’میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔‘‘دوسری ترجیح اسٹیبلشمنٹ کو’’ کیفرِکردار ‘‘تک پہنچانا۔سیاسی مخلوط حکومت، عسکری قیادت، دیگر ادارے سر پکڑے ،جاننے، سمجھنے، پرکھنے کی صلاحیت سے محروم ،وطنِ عزیز کی کشتی بیچ بھنورڈگمگا رہی ہے۔

ملکی معیشت اوندھے منہ گڑھے میں، نئے خطرناک عمران خان کی ساری توانائی اس کو مزید گہرا کرنے میں۔ اگر ابتر معیشت گراوٹ کی آخری سطح کو چھوتی ہے تو امکان قوی، عمران خان کسمپرسی کے ماروں کو مزید اُکسا کر سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے گا۔بصورت دیگریا حالات کی سنگینی سےعوام الناس اپنے طورسڑکوں پرآسکتے ہیں ،دونوں صورتیں، عمران خان فائدے میں۔سڑکوں پرعوام، ایسے جم غفیر کا پر تشدد ہونا یقینی رہے گا۔ یوکرین کا اورنج انقلاب یا مصر یا سری لنکا طرز پر، بپھرے مجمع کو کوئی طاقت روک پائے گی نہ مؤثر رہے گی۔

عمران کی 23جنوری2022ء کی تقریر، ’’میں ’خطرناک ‘ ہوجاؤں گا،’آپ لوگوں ‘ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی‘‘،دورائے نہیں کہ ’’آپ لوگوں‘‘سے مراد عسکری قیادت ہے۔مت بھولیے، اسٹیبلشمنٹ کے قبضہ استبداد میں عمران خان حکومت کی جان بھی جبکہ حقیقت یہ بھی کہ عمران خان کیلئے محسنوں سے نبٹنا،آزمودہ ہے۔موصوف منتقم المزاجی اور منافقت کا امتزاج،اپنی کمزوری کو فخر میں تبدیل کرنے کا فن اضافی صِفت۔چند شخصی صلاحیتیں مزید،انتہائی دلیربلکہ دیدہ دلیر،بے خوف،سخت جان، جارحیت میں یکتا، تمیز اور بدتمیز،تہذیب اور بدتہذیب کی افراط و تفریط سے مبرا(بلکہ بری الذمہ )۔کئی سال سے ڈنکے کی چوٹ پر نجی محفلوں میں اپنے دوستوں میں،اپنے وی لاگز میں برملا اظہار کر چکا ہوں کہ جس دن عمران خان خم ٹھونک کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آیا،خطرناک ہوگا۔ اپوزیشن پر بدزبانی، دشنام طرازی ،الزام تراشی میں کمی لائے بغیر عمران خان کا بنیادی اور مرکزی ہدف عسکری قیادت ہی ہے۔

زمینی حقائق بھی یہی کہ عمران خان مع اپنے ساتھیوں کے( مین اسٹریم میڈیاخصوصاً سوشل میڈیادونوں تابع فرماں)اپنی تما م تر توانائی بغیر کسی حیل و حجت اسٹیبلشمنٹ کیخلاف لگا چکا ہے۔ مقتدرسیاسی جماعتوں اوراداروں پر ایسا حملہ کہ بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔کئی مہینوں سے اپنے قتل ہوجانے کی پیشگوئی سے لے کر،میڈیا پر بلیک آؤٹ کا شوشہ،سونے پر سہاگہ ایسے حالات میں اپوزیشن کی اہم ترینSLOTملکی تاریخ میں پہلی بار اکلوتے عمران خان کے قبضے میں۔غرضیکہ ہر وہ امکانی تدبیر جو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے،عمران کے حق میں ،مملکت کی بیخ کنی میں صف آرا ہوچکے ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک عمران خان کے جارحانہ انداز کے سامنے ادارے،سیاستدان ڈھیر، مدافعانہ دکھائی دیتے ہیں۔اپنے تئیں مطمئن،کئی مہینوں پہلے سیاست کے اکابر کو متنبہ کیا تھا کہ اس اقتدار کو چمٹے سے نہ اُٹھانا، مہنگا پڑے گا۔

چند دن بعد 17جولائی کو ہر دو نتائج عمران خان کے فائدہ میں استعمال ہونے ہیں۔عمران خان کی تقاریرانتہائی مؤثر، مرکزی نقطہ پوری آب وتاب کے ساتھ اجاگر، اپوزیشن ہدف ضرور ، کوالٹی فقرے تاک تاک کر اصلی نشانے پر۔ ساری تیاری صف بندی کا لب لباب ایک ہی،پیغام عام ’’اس ملک سے غداروں اور سازشیوں کا قلع قمع کرناضروری ہے‘‘،ماننے والے مذہبی فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

 عمران خان کا ٹولہ سوشل میڈیا پر پس پردہ،برگر ریسٹورینٹس وغیرہ میں ، لاہور لبرٹی چوک ، کراچی زمزمہ،اسلام آباد کے پوش علاقوں میں سڑکیں بلاک کر کے، بڑے جلسوں اور بیانیہ کی مقبولیت کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ضرور،اصل حقیقت بھی سامنے ، پلے نئیں دھیلہ،چند ہفتے پہلے25مئی کے لانگ مارچ نے سیاسی قوت کی تعداد، استعدادکی قلعی کھول دی۔افسوس سیاسی حکومت اس ناکامی کا خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھا سکی۔آفرین! اتنے بڑے دھچکے اور ذلت و خواری کے باوجودعمران خان نے اپنے ماننے والوں کے حوصلے پست نہیں ہونے دیئے ۔ 

لفظی جنگ اور بیانیے کو ہمیشہ کی طرح بام عروج دے رکھا ہے۔دوسری طرف ،اپوزیشن جو ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کے نعرے پر سیاست کو چار چاند لگا چکی تھی۔شو مئی قسمت، مقتدر سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ایسی مدد گار کہ پیچھے ہٹنے کو نہ کھل کر سامنے آنے کو ،بے سدھ وبے سمجھ بلکہ بے یار ومدد گار۔ زیادہ مایوسی، جو بات ہائی اسکول کہ کسی بھی ہونہار طالبعلم پر واضح تھی، کہ ملک جس نہج پر، 2014ء سے ملک کی چولیں ہلادینے والاسیاسی عدم استحکام 2022ء میں ہر بلندی کوچھو چکا ۔ برا ہو اقتدار کے لالچ ،ذاتی کمزوریوں ،خوف، ڈر یا’’ وسیع تر قومی مفاد‘‘ سب خود فریبی ہی تھی۔بلندبانگ دعوے ہوئے ’’ ہم ہی ہیں وہ اہل جو پلک جھپکتے ملک کو بحران سے نکالیں گے‘‘،آج باجماعت منہ کے بل اوندھے پڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ جب کسی کو تباہ کرتا ہے تو پہلے مت مارتا ہے،لالچ، طمع خوف و ڈر بھی آدھی مت مار ڈالتا ہے۔یہی کچھ اپوزیشن کے کھاتے میں، مت ماری گئی، پلک جھپکتے اقتدار دبوچ لیا۔ آج سیاسی میدان میں عمران خان اکیلادندناتا پھرتا ہے۔

ہمیشہ سے معلوم تھا کہ اقتدار کے کمبل سے بغلگیر ہوتے ہی،کمبل نے قیادت کو ادھ موا رکھنا تھا۔زمینی صورتحال ،اس قدر بے بسی ، وہم و گمان میں نہ تھی۔ امریکہ نے 1971کے بعد بڑی محنت و مشقت کے بعد (IMFاورFATFکی مدد شاملِ حال)وطن عزیز کو اس حالتِ زار تک پہنچایاہے۔خاطر جمع رکھیں،17جولائی ضمنی انتخابات کے بعدانتشار، افراتفری،انارکی کی نئی اور شدید لہر اُٹھنے کو۔براہِ راست ہدف عسکری قیادت ہی،ثانوی کردار بھی نظر انداز نہیںکیے جا رہے۔

عمران خان نے ہر صورت ضمنی الیکشن کے بعد عوام کو سڑکوں پر لانا ہے۔ صورتحال پوری طرح عمران خان کے ایجنڈے کے مطابق، وطنی ابتری میں عمران خان نے ہر حد چھونی ہے۔وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا بدلہ چکائے گا۔کیا عمران خان کی پاکستان کو سری لنکا بنانے کی خواہش پوری ہوگی؟کیا ہماری سیاسی قیادت اور اداروں سے عوام کا ٹکراؤروکنے کی کسی حکمت عملی پر کہیں غور و خوض بھی ہورہا ہے؟ کیا عمران خان کے جارحانہ عزائم کو کھلی چھٹی،پاکستان متحمل ہو پائے گا؟ میرا دماغ سُن، اس دن کو دیکھنے کیلئے یہ زندگی نہیں چاہئے تھی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔