Time 21 جولائی ، 2022
بلاگ

ناکامی ِعشق یا کامیابی، حاصل بربادی

17جولائی کے ضمنی انتخابات، سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل،عمران خان کے جارحانہ بیانیہ کی نئی دھاک بیٹھ گئی۔عمران خان کے بیانیہ کو سیاسی طور پر چیلنج صرف نواز شریف کو کرنا تھا جبکہ نواز شریف سیاست سے باہر ،سانحہ ہی تو ہے،اگرچہ اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ برسوں پہلے کر لیا تھا۔مسلم لیگ ن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ پر ووٹ کی عزت کو آج داغدارکر چکی ہے۔

 آج بیانیہ عمران خان کے پاس جبکہ حکومت مسلم لیگ ن کے پاس،مسلم لیگ ن کا بھگتنا اور ریاست پاکستان کی چولیں ہلنا اچنبھے کی بات نہیں۔ ریاست پر آج جو جاں کنی کا عالم ہے اس کا ذمہ دار عمران خان قطعاً نہیں، وہ صرف مہرہ ناچیز ہے۔ تحریک عدم اعتماد اور نواز شریف کو ملکی سیاست سے باہر رکھنے کا نتیجہ اتنا کہ پنجاب میں 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی واضح شکست رہی۔

عرصہ دراز سے، پچھلے کالموں میں صراحت سے مؤقف ایک ہی ،عمران خان کے سامنے حکومت اور تمام ادارے بے بسی،لاچاری کی تصویر بنیں گے،آج بنے بیٹھے ہیں۔ہر حکومت ، ہر ادارہ اپنے آپکو بچانے کی فکر میں ہے۔عمران خان کی خواہشات اور شرائط پر ہر سمت بھاگ دوڑ ہے،سارے ادارے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

’’پاکستان کا مستقبل مخدوش ہے‘‘، یہ فقرہ زبان زد ِخاص و عام ہے۔ازراہِ تفنن، مسلم لیگ ن کا قومی خدمت ،جذبہ رائیگاں ،تحلیل ہو رہا ہے۔کیا ضرورت تھی تحریک عدم اعتماد لانے کی؟ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کےہنی مون کو بد مزہ کرنے کی؟ پاکستان کو بچانے کا عزم اور جذبہ شہباز شریف اورپارٹی پر غالب رہا،وطن کی خدمت کی ایک دھن سوار ،اب تلاش کہ دھکا کس نے دیا تھا؟

تاریخ و تحقیق ، 1971ء میں پاکستان توڑنے کا اصل ذمہ دارجنرل ایوب خان، 1951ء سے فوج کا سربراہ بنتے ہی 7سال سازشوں کا حصہ رہا، بے شمار سیاستدانوں اور حکومتوں کو روندا،پلک جھپکتے1958ء میں آئین بوٹ کی نوک پر، سیاسی نظام تہہ و بالا کیا۔ دس سال بعد جب 1969ء میں اقتدار چھوڑا تو 1971ء میں جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں پاکستان کا ٹوٹنا ایک رسمی کارروائی تھی۔آج پاکستان توڑنے کا ذمہ دار یحییٰ خان گردانا گیا۔

شہباز شریف،یحییٰ خان کے نقشِ قدم پر، عمران خان کے سارے گند اور سازشوں کو اپنے ماتھے کا جھومر اور سر کا سہرا بنا چکا ہے۔ آنے والی ہر انہونی کا ذمہ دار شہباز شریف نے رہنا ہے۔عمران خان کا ساڑھے تین سالہ بدترین دور،کسی طور زیر بحث نہیں آنا، شک نہیں ،عمرانی دور، مملکت کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہی تو رہا۔

ساڑھے تین سالہ اقتدار وطنی بربادی، افراط و تفریط،ٹکراؤ،مارو ، مر جاؤ کے بیج بونے اور قومی تباہی کی فصل کی آبپاری میں لگائے۔ عمران خان حکومت کا ایک عمل، کوئی کارکردگی قابلِ ذکر جو دفتر میں ہو، نئے بیانیہ کا مقصد ایک ہی کہ بھیانک دورِ حکومت زیر بحث نہ آئے۔نئے بیانیہ کو پذیرائی ایسے، ہر بول جھوٹ ، چار سو چھا چکا ہے۔

 دورائے نہیں، پاکستان آج جس حالت میں اسکی ذمہ داری اور کریڈٹ صرف اور صرف ایمپائرز اور عمران خان کو جانا چاہئے تھا۔بدقسمتی اتنی جب تعین ہوگا تب تک دیر ہوچکی ہوگی۔بُرا ہو عوامی تاثر (OPTICS) کا،کئی نسلوں تک شہباز شریف اور اتحادیوں کوپاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائیگا۔ایمپائرز اور عمران خان نظر انداز رہیں گے۔ حالات شہباز شریف کو’’ گوشہ بدنامی‘‘ میں دھکیل دیں گے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد عمران خان کے حوصلے ساتویں آسمان پر پہنچنا بنتا ہے۔ الیکشن کمشنر کے خلاف اعلان،سوچی سمجھی اسکیم جبکہ ایمپائرز کو یوٹرن کا مشورہ دینا رعونت کی علامت ضرور، عمران خان کی تعریف بنتی ہے ۔کرپشن اور نااہلی کے ریکارڈ مگر قسمت بہادروں پر مہربان رہتی ہے،بزدل کی جگہ سیاست نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ آچکا ہے۔

 سب کچھ عمران خان کے حق میں جا رہا ہے۔اپنے ماننے والوں کے جذبات ابھار چکے ہیں ،چاہنے اور ماننے والے عمران خان کے جھوٹ کو ایمان اور اعتقاد کا حصہ بنا چکے ہیں۔ عمران کے پاس بڑی سہولت کہ حکومت اور حکومتی ادارے اسکے نشانے پر، پہلی صف بندی چیف الیکشن کمشنر کیخلاف اس لئےکہ معلوم ہے ممنوعہ فنڈنگ میں جرائم گھناؤنے،کسی طور بچنے کا امکا ن مشکل ۔

 عمران خان کا دبدبہ دیدنی ہے۔ یہ دبدبہ ہی’’ایک بڑے آدمی ‘‘ کی لاہور میں ایک ’’اہم آدمی ‘‘ کو کال کہ فوری طور لاہور سے اسلام آبادپہنچو اور پرویز الٰہی کو بنی گالہ روانہ کرو۔ پرویز الٰہی کی تعمیل ،پلک جھپکتے عمران خان سے عہدو پیمان کرڈالے۔پرویز الٰہی اگر اس دن زرداری سے وعدے نہ توڑتے،آج پنجاب بحران کا شکار نہ ہوتا۔ سیاسی حکومت بے بسی کی تصویر، اس لئےکہ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حیثیت واگزار کرائے بغیر سودا گری کی ۔ اب جب جاں کنی کا عالم تو عمران خان کو زیر کرنے کےلئے نہ بندہ نہ بندے کی ذات،مسلم لیگ کی بے بسی بنتی ہے۔

22تاریخ کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا الیکشن، کاغذوں میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو قوی امکان کہ تحریک انصاف کو روکنے میں کامیابی مل جائیگی۔حکومتی اتحاد کے جوڑ توڑ کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو حکومت سے باہر کرتا ہے یا کوئی نیا داؤ چلا جاتا ہے یا پینترا بدلا جاتاہے اور پرویز الٰہی کے ذریعے پی ٹی آئی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہر دو صورتوں میں ’’ ناکامی عشق یا کامیابی، دونوں صورتوں میں حاصل ،خانہ بربادی‘‘۔ 23جنوری کو عمران خان نے اپنے خطرناک ہونے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہوچکا بلکہ نتائج دے رہا ہے۔ حکومت مع ریاستی ادارے بے بس و لاچار ، ’’ اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے‘‘۔ بُرا ہو اقتدار کی لالچ ، ڈر، خوف عاقبت نا اندیشی، مسلم لیگ ن مفت میں ترنوالہ بن گئی۔لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی تھی۔مسلم لیگ ن مفت میں خرچ ہوگئی،بے موت ماری گئی۔ پاکستان کی بربادی کی ذمہ داری کا سہرازبردستی اپنے سر باندھ چکی۔

موجودہ صورتحال میں مشورہ ایک ہی ، شہباز شریف اسمبلیاں توڑیں اور انتخابات میں جائیں۔ قوی امکان عمران خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر واپس حکومت بنالے۔عمران خا ن کی سیاست کو ختم کرنے کا طریقہ ایک ہی، حکمراں عمران کا شکار آزمودہ اور آسان ترین فارمولہ، آزمانا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔