18 اگست ، 2022
نواز شریف واپس وطن قدم رنجہ فرمائیں یا پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پر احتجاج کریں،سب رائیگاں جانا ہے۔تحریکِ عدم اعتماد وہ غلطی کہ ازالہ ناممکن، خمیازہ بھگتنا ہوگا۔مسلم لیگ ن نے اقتدار کے بدلے اپنی سیاست بیچی ،چہ ا رزاں فروختند۔منت ترلے کئےتحریک عدم اعتماد نہ لاؤ،برباد ہوجاؤ گے، عمران خان سیاست آباد ہوجائے گی،کسی نے ایک نہ سُنی۔
گردشِ ایام،6ماہ پہلے ،تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی قطار اندرقطار باہر، مسلم لیگ کے ٹکٹ کی تگ و دو میں صف بند تھے۔ عمران خان ساڑھے تین سالہ اقتدار ہو یا پچھلے چند ماہ کی اپوزیشن،ہر دو حیثیتوں میں معاملات اُلجھانے اور الجھے معاملات میں پھنسنے کا باکمال وصف رکھتے ہیں۔
دورائے نہیں عمران خان کو ٹھکانے لگانے کے کئی منصوبے زیر غور ہیں،انکاسیاسی عرصہ حیات اختتام قریب۔میرا موضوع،کیاوجہ کہ مسلم لیگ (ن) مقبولیت کے ساتویں آسمان سے زمین پر؟سانحہ ہی توہے چند ماہ پہلے تک طاقتور سیاسی جماعت کے طور پر اکیلی،نواز شریف مقبولیت کا اپنا سکہ جما چکے تھے،آج اس حال میں کیوں؟ایک عرصے سے مسلم لیگ ن قیادت یکسوئی سے محروم۔حالات اور قانون کا جبر عملاً پارٹی شہباز شریف کو منتقل، روز مرہ کے معمولات،معاملات بلا شرکت غیرے ان کے رحم و کرم پر،جبکہ مسلم لیگ کے ماننے والے،چاہنے والوں کا سیاسی قبلہ آج بھی نواز شریف۔
شہباز شریف برملااسٹیبلشمنٹ کی ذیلی سیاست کر کے مطمئن جبکہ نواز شریف کی مقبولیت کا راز ہی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف رائے رہا۔ آخری دفعہ2018کے شروع میں نواز شریف نے بھر پور انتخابی مہم چلائی تو مریم نوازہر جلسے میں شانہ بشانہ شریک ہوئیں یوں مریم نواز نے سیاسی وراثت اور نواز شریف کا بیانیہ اپنے نام کیا۔ نواز شریف کے ماننے، چاہنے والوں کی آنکھ کا تارا، جانشین ضرور بنیں،مسلم لیگ ن کے اندر اور باہر کچھ کو ایک آنکھ نہ بھائیں۔ مریم نوازکو متعدد بارچپ کا روزہ رکھوایا گیا،کئی بار سیاست سے دور رہیں۔ عمران خان حکومت کی نااہلی، نالائقی،ناکامی کا فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ ضروری تھا اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا مگریہ شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی سے ٹکراؤ تھا۔
پارٹی کی اپنی صفوں میں دو طرح کا تاثر عام ہوا۔نواز شریف اور شہباز شریف کے دو متحارب بیانیوں میں کس کا ساتھ دیناآسودگی رہے گا۔ نواز شریف کے بیانیے کو پروان چڑھانے والے اپنی ہی پارٹی میں معتوب ٹھہرے، کھڈے لائن لگے۔ پرویز رشید ،میاں جاوید لطیف ،نوجوان لیڈروں کا بڑا حصہ کئی مثالیں، مثال بنا دیئے گئے۔ایک اور خطرناک تاثر پارٹی کی اپنی صفوں میں سرایت کرگیا کہ ’’دو بیانیے‘‘دونوں لیڈروں کی ملی بھگت تو نہیں؟ تحصیل،ضلعی،صوبائی اور کہیں کہیں مرکزی سطح پر لوگ فیصلہ کرنے سے قاصر کہ انفرادی سیاسی مستقبل کے تحفظ کیلئےکس کا دامن پکڑیں کہ نفع بخش سوداہو۔
ضمناً عرض کرتا چلوں کہ مریم نواز پر مسلم لیگی ورکرزکا اعتمادکوئی حادثاتی نہیں تھا۔ مریم نواز کی قربانی،کڑے وقت میں نواز شریف کیساتھ نتائج سے بے پروا،نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ آج کچھ ہوجائے لیگی سیاست مریم نواز کو منتقل ہوچکی۔جولائی 1977کے مارشل لاکے نتیجہ میں بھٹو صاحب معزول ہوئے ، جیل میں قتل کے مقدمہ کا سامنا تھا۔عینی شاہد ہوں، بھٹو صاحب کے پارٹی اکابرین ان کی زندگی میں ہی جنرل ضیاء الحق کے دستر خوان پر کھابے اُڑاتے پائے گئے۔بھٹو صاحب کیساتھ اگر نصرت بھٹو اوربے نظیر نہ ہوتیں تو بھٹو کا نام و نشان کتابوں میں ہی ملتا یا نہ ملتا۔
مریم نوازکا تکلیف دہ حالات میں ڈٹےرہنااور ’’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی امین بننا،نواز شریف کے سیاسی وجود ہی کوتو زندہ رکھا وگرنہ 13 جولائی 2018ء کے بعدآج کے دن مسلم لیگ ن کے حالات نے اس سے بھی ابتر رہنا تھا۔ بدقسمتی اتنی، مریم نوازبن کھلے’’ محلاتی سازشوں‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔’’چند ٹکوں کے اقتدار‘‘ کیلئے چند مفاد پرستوں نے نوازشریف کی سیاست کو ٹکے ٹوکری کر دیا۔آج عمران خان دندناتا پھرتا ہے،کوئی چیلنج ہے ہی نہیں۔عمران خان حکومت وطنی تاریخ کی بد ترین،دفتر کارکردگی سے خالی،آج چاراطراف چھایا اس لئے کہ نواز شریف کا بیانیہ اُچک لیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ کہ ایسے بیانیے میں بڑی برکت رہی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پلک جھپکتے نہ کرنے کے سارے کام کر ڈالے۔ 13جولائی کی نواز شریف کی عظیم قربانی کے بعد پارٹی کا غیر سیاسی نامہ اعمال ملاحظہ فرمائیں۔بھاٹی گیٹ پر جمع ورکرز کی حوصلہ شکنی کی،2018ء الیکشن کے نتائج مان لئے،اسمبلی پہنچتے ہی میثاق مفاہمت یا معیشت پیش کیا،2019ء میں مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ پردھوکادیا،جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا سہرا سر باندھا،2020ء میں جب PDMکیساتھ سڑکوں پر نکلے تو جیسے نواز شریف نے سخت تقریریں کیں ،مسلم لیگ ن کے اندر ایک مؤثر گروہ اپنے ہی جلسے ناکام بنانے میں جُت گیا ،اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ ابرو پر عمران حکومت کا تختہ اُلٹا اورآج جب اقتدارملاتوسیاسی لُٹیا ڈبو چکے ہیں۔’’ ؎ میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب ‘‘ انہی سے مفاہمت۔ مسلم لیگ ن کی آخری امید عمران خان کی سیاسی موت سے جُڑ چکی،’’نا امیدی اسکی دیکھا چاہئے‘‘۔
شک نہیں، عمران خان چُنگل میں آنے کو،نورتن نے اسٹیبلشمنٹ کے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی رہنا ہے ۔عمران خان کامعاملہ شہباز گل سے مختلف نہیں رہنا۔نومبر، دسمبر 2021ء میں یہ بات عیاں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں ٹھن چکی ہے۔ جنوری فروری میں ٹکراؤ سنگین،عمران خان مارچ تک ٹھکانے لگنے کو۔پہلی دفعہ ایسی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کو اکیلے لڑنا تھی۔اسٹیبلشمنٹ نے کمال ہوشیاری سے سیاسی پارٹیوں کے گلے ڈال دی ۔مسلم لیگ ن سارا عرصہ سیاسی طور پر غیر متحرک رہی۔جوڑ توڑ سے عمران حکومت کو گرانا واحد ہدف بن گیا۔مریم نواز نے گاہے گاہے کچھ جلسے کئے مگر ناکافی اور بیانیہ کے بغیر۔اقتدار کی حرص میں مسلم لیگی قیادت دور کی کوڑیاں لائی۔اگر فلاں شخص آرمی چیف بن گیا تو اگلے دس سال تاریک۔سوال اتنا، آج جس مستقبل سے دوچارکیا اس سے بھی زیادہ تاریک رہنا تھا؟
کرنے کے کام ابھی بھی۔سرِدست نواز شریف پاکستان آنے کا نہ سوچیں۔ پارٹی کی صدارت مریم نواز کے حوالے کریں۔پارٹی کی گراس روٹ لیول پر تنظیم سازی اورایک بڑے بیانیے کیساتھ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔عمران خان کو ٹھکانے لگانا،’’اگلوں‘‘ کافرضِ منصبی،اس کاعوامی رد عمل سیاسی جماعتوں پر نہ آئے، بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے بچنا ہے ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔