Time 19 ستمبر ، 2022
بلاگ

معیشت پر سیاست اپنے عروج پر

پاکستان کے معاشی حالات جو پہلے ہی ابتر تھے سیلاب کی تباہ کاریوں نے مزید بدتر کر دیے ہیں۔ اقتصادی میدان میں پاکستان کو ایک قومی یکجہتی کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم اس مشکل سے کسی صورت نہیں نکل سکتے۔ معاشی استحکام کیلئے معیشت کو سیاست سے پاک کرنا ضروری ہے جس کیلئے سیاستدانوں کا کردار نہایت اہم ہے۔

 افسوس کہ سیاستدانوں کیلئے اُن کے اپنے اپنے سیاسی مفادات سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں اور اسی طرز عمل اور طرز سیاست کا مظاہرہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ حالی کا سامنا ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں کہ معیشت کی تباہی کا مطلب ہے پاکستان کیلئے بیرونی خطرات اور اندرونی انتشار جبکہ عوام کو بھی ناقابلِ بیان مشکلات کاسامنا ہوگا۔ 

سیاست دانوں کی مگر حالت دیکھیں کہ اُنہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی ہے اور اسی کے گرد اُن کی ساری سیاست گھومتی ہے۔ ن لیگ کا وہ دھڑا جو حکومت میں ہے اور جسے وزیر اعظم شہباز شریف لیڈ کر رہے ہیں اُس کی معیشت کے بارے میں بات سنیں تو وہ کچھ اور کہتا ہے جبکہ اسی جماعت کا ناراض دھڑا جس کی نمائندگی نواز شریف اور مریم نواز کر رہے ہیں ،وہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کھلے عام مخالفت کرتا نظر آتا ہے۔ 

جس ن لیگ کا معیشت کے بارے میں اپنے اندر کوئی اتفاق نہیں اور جس کے حکومت سے باہر بڑے بڑے رہنما معیشت پر اپنی ہی حکومت سے سیاست کر رہے ہیں، وہ جب میثاق معیشت کی ضرورت پر زور دے اور اس سلسلے میں رکاوٹ کا الزام اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کرے تو اُس پر کوئی کیسے اعتبار کرے۔؟ 

کوئی اگر یہ کہے کہ نواز شریف اور مریم کو یہ اندازہ نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو سیاسی نعروں اور مصلحتوں کی بجائے ٹھوس اور مشکل اقدامات سے ہی بچایا جا سکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ معیشت کی بنیادیں ٹھیک کئے بغیر پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری ممکن نہیں اور اس کیلئے مشکل فیصلوں کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں لیکن ایسا کرنا چوں کہ اُن کی سیاست کو سوٹ نہیں کرتا، اُنہیں عوامی طور پر غیر مقبول کر رہا ہے، اُن کیلئے آئندہ الیکشن میں مشکلات کا سبب بن سکتا ہے اس لئے وہ اپنی سیاست کو بچانے کیلئے معیشت پر اُسی طرح سیاست کر رہے ہیں جس کا الزام وہ عمران خان پر لگاتے ہیں۔

 جب سب کو معلوم تھا کہ عمران خان حکومت کو نکالا تو معاشی مشکلات کا ایسا سامنا ہوگا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی توکیا اُس وقت اقتدار کی ہوس نے ن لیگ سمیت اس کے اتحادیوں کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا۔ اب رونے دھونے کا کیا فائدہ؟ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ عمران خان کو حکومت سے نکال کر ان کو بہت بڑا لیڈر بنا دیا گیا۔ عمران خان کو نکالنا ہی تھا تو اقتدار کی اپنی ہوس پر تھوڑا قابو پاتے اور فوری نئے الیکشن کروا دیتے لیکن فیصلہ کیا گیا کہ ہم حکومت کریں گے اور سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔

 ٹھیک تو کچھ بھی ہو نہیں رہا لیکن اقتدار کے ساتھ چپکے بیٹھے ہیں۔یہ درست ہے کہ موجودہ اقتصادی تباہ حالی کی بنیادعمران خان نے اپنی حکومت میں رکھی اور آج سارا ملبہ اپنے مخالفوں پر ڈال کر ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ بس الیکشن کراو۔ اپنے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا ذریعہ خودبنے رہے، سارا وقت اپنے مخالفیں سے لڑتے اور انہیں چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتےرہے، اب کہتے ہیں معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور اُس کا فوری اور واحد حل الیکشن ہی ہیں۔

 عمران خان معیشت پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ کہتے ہیں پہلے الیکشن کا اعلان کرو پھر کوئی دوسری بات کرو۔ نئے الیکشن کا مطلب کم از کم تین چار مہینے ہے، وہ بھی اگر آج نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے ۔ اگر عمران خان نئے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات اور نئے الیکشن کمیشن کا اپنا مطالبہ منوانا چاہتے ہیں تو پھراس کا مطلب یہ ہوا کہ جلد از جلد انتخابات کو بھی پانچ چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔

سرِ دست ملک کی جو معاشی حالت ہے اُسے فوری علاج کی ضرورت ہے اور چند مہینوں کے انتظار کا مطلب مکمل تباہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی سیاست کیلئے موجودہ حکومت کا معاشی طور پر ناکام ہونا سوٹ کرتاہے ۔

 موجودہ حکومت کی معاشی ناکامی اور آسمان کو چھوتی مہنگائی، عمران خان کو الیکشن تو جتوا دے گی لیکن اگرملکی معیشت کو درست کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے اور معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہ کیا گیا تو عمران خان کو الیکشن جیتنے پر جو معیشت ملے گی وہ اُنہیں بھی حکمرانی کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ اس لئے اب بھی وقت ہے ،حکمران ہوں، ن لیگ کا ناراض دھڑا، عمران خان یا دوسرے سیاست دان ،سب مل کر ملک کا سوچیں، عوام کا خیال کریں اور معیشت پر سیاست بند کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔