20 ستمبر ، 2022
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز کی اپیل پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیےکہ مفروضے پر نہیں جاسکتے، نیب دستاویز سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرے۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نےکی۔
سماعت کے آغاز میں نیب پراسیکیوٹر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینےکا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیےکہ نوازشریف کی اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی، مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے، انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں؟ نیب کو اس کا دفاع کرنا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب کہتا ہےکہ نوازشریف نے1993 میں اثاثے خریدے اور چھپائے، پھر شواہد سے ہی ثابت کرنا ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کی معاونت کیسے کی؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا ہم وہ ٹریک کلیئر کررہے ہیں جس پر آپ نے آگے جانا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے بچے وہاں پر رہ رہے تھے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عوامی معلومات کی کسی بات پر آپ پر بوجھ شفٹ تو نہیں ہوجاتا، آپ فی الحال پراپرٹی کی ملکیت کو نوازشریف سے لنک کردیں، یہاں تو آدھا پاکستان دوسروں کے گھروں میں رہ رہا ہے، پہلے یہ سمجھائیں کہ 1993 میں نیلسن اور نیسکول کا نواز شریف سے کیا تعلق تھا؟ اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سے سوال نہیں کرسکتے۔
عدالت کے سوالوں پر نیب پراسیکیوٹر نےکہا کہ ہماری آج کے لیے بس ہوگئی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ نوازشریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا کہ یہ جائیداد اُن کی ہے؟ اس پر وکیل مریم نواز نےکہا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا کہ جائیداد ان کی ہے۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ یہ بھی بتائیں کہ کیا اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے ادائیگی نوازشریف نے کی؟
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔