08 نومبر ، 2022
امریکا کی سیاسی تاریخ میں یہ مڈٹرم الیکشن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ 8 نومبر کو ہونے والے ان الیکشنز میں ایوان، ریاستی اسمبلیوں،میئر کونسل، اور بورڈ سمیت مختلف عہدوں پر کئی پاکستانی امریکنز بھی قسمت آزما رہے ہیں۔
ماضی کے مقابلے میں اس بار پاکستانی امریکنز ان الیکشنز میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔ان میں سے زیادہ ترپیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹرہیں۔ اہم ترین اور تاریخی معرکہ ڈاکٹرآصف محمود کا ہے۔
کھاریاں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرآصف محمود پلمونولوجسٹ ہیں۔وہ نائب صدر کاملا ہیرس کے قریب ترین سمجھے جانیوالے واحد پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ہیں۔ صدربائیڈن سے ان کا واجبی سا رشتہ ہے۔ شاید یہی ان کے کام بھی آجائےکیونکہ ڈیموکریٹس کی گڑھ ریاست کیلی فورنیا میں بھی بائیڈن اس وقت زیادہ مقبول نہیں۔ بڑھتی مہنگائی صدربائیڈن کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیے ہوئے ہے۔
صدر بائیڈن دو ہفتے پہلے کیلی فورنیا آئےتو ڈاکٹر آصف محمود نے ان سے ملاقات کی تھی مگر اچھا ہوا کہ بائیڈن نے ڈاکٹر آصف کے حق میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ڈاکٹر آصف کے لیے یہی کافی ہے کہ نائب صدر کاملا ہیرس اور ہیلری کلنٹن نے انکے لیے فنڈریزنگ کی تھی۔
ڈاکٹر آصف محمود منتخب ہوئے تووہ نہ صرف پہلے پاکستانی امریکن بلکہ پہلے جنوب ایشیائی مسلم امریکن رکن کانگریس ہوں گے،انکا مقابلہ موجودہ رکن کانگریس یونگ کم سے ہے ۔ کانٹے کا یہ مقابلہ جیتنے کے لیے ری پبلکن حریف اپنی انتخابی مہم میں ڈالر پانی کی طرح بہا رہی ہیں۔
ایک اورپاکستانی امریکن جن کے اہم نشست جیتنے کاامکان ہے وہ ڈاکٹر سعود انور ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اور آغا خان اسپتال کے گریجویٹ ڈاکٹرانور یکم مارچ 2019 سے کنیٹی کٹ کے ڈسٹرکٹ تھری سے ریاستی سینیٹ کے رکن ہیں۔
پچھلی بار ڈیموکریٹ پارٹی کا ٹکٹ لینے کا مرحلہ منسوخ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرسعود بلامقابلہ جیتے تھے تاہم اس بار ان کا مقابلہ ری پبلکن حریف میٹ ہارپر سے ہے۔
سیاسی پس منظر اپنی جگہ ڈاکٹر سعود انور کورونا وبا کےدوران آسان ترین طریقے سے وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی وجہ سےبھی شہرت کے حامل ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکن ڈاکٹر جے جلیسی ریاست میری لینڈ کے ڈسٹرکٹ 10 سے ریاستی ایوان کے سن 2015 سے رکن ہیں۔ اس بار انہوں نے ریاستی سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک تو حلقے میں افریکن امریکن لہر انہیں لے ڈوبی پھر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پرائمری یعنی پارٹی ٹکٹ لینے کی دوڑنہ جیت پائے۔
میری لینڈ ہی سے تعلق رکھنے والے ثاقب علی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ سن 2007میں ڈسٹرکٹ 39 سے ریاستی ایوان کے رکن بنے تھے مگر اگلے ہی برس عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اس بار وہ ڈسٹرکٹ 15 میں مونٹگمری کاؤنٹی سے اسٹیٹ ڈیلیگیٹ کاالیکشن لڑنے کے خواہشمند تھےمگر پرائمری نہ جیت سکے۔
ٹیکساس سے اس بار کراچی سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانی امریکنز کے ریاستی اسمبلی کا رکن بننے کاامکان ہے۔ان میں سےایک ڈاکٹر اور دوسرے وکیل ہیں۔
ڈاکٹر سلیمان لالانی ٹیکساس کے ڈسٹرکٹ 76 سے ڈیموکریٹس کی نسبتاً محفوظ نشست پر الیکشن لڑرہے ہیں۔کراچی سےتعلق رکھنے والے ڈاکٹر لالانی نے1992 میں سندھ میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔انہوں نے پرائمری میں اپنی ڈیموکریٹ حریف وینیسا جانسن کو تقریبا دو گنا ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اب انکا ری پبلکن حریف ڈین میتھیوز سے مقابلہ ہے۔دو عشروں سے ہیوسٹن میں مقیم ڈاکٹر لالانی ہارورڈ سے تعلیم یافتہ اور امریکا کے نامور ترین فزیشنز میں سے ایک ہیں۔
سلمان بھوجانی ٹیکساس کے ڈسٹرکٹ 92 سے ڈیموکریٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے ہیں۔ حسن اتفاق یہ ہےکہ وہ بھی کراچی ہی سے تعلق رکھتےہیں۔ وہ 1990 میں کینیڈا گئےتھے مگر 1999 میں امریکا منتقل ہوگئے۔ یکم مارچ کو پرائمری میں انہوں نے بھی اپنی حریف ٹریسی اسکاٹ کو دوگنا ووٹوں سے ہرایا تھا اور اب انکا مقابلہ ری پبلکن حریف جو لیونگسٹن سے ہے۔
ریاست ٹیکساس کے ڈسٹرکٹ 27 سے سہراب گیلانی ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر ایوان کےلیے الیکشن لڑرہے ہیں۔ انکا مقابلہ ڈیموکریٹ حریف ران رینالڈز سے ہے۔ گیلانی کی جیت کے امکانات کم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کے لیے الیکشن یعنی پرائمری میں گیلانی کو چارہزار سولہ ووٹ ملے تھے جبکہ انکے حریف ڈیموکریٹ حریف نے پرائمری 12ہزار 6سو57 ووٹوں سے جیتی تھی۔
ریاست ٹیکساس ہی سے پاکستانی امریکن مائیک معید خان نے بھی ری پبلکن پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی کوشش کی مگر پرائمری جیتنا ان کا مقدر نہ بن سکا۔
اسی ریاست سے تعلق رکھنے والے نامور ڈیموکریٹ طاہر جاوید نے 2018 میں امریکی ایوان نمائندگان کے لیے ڈسٹرکٹ 29 سے پرائمری الیکشن لڑا تھا اور دوسرے نمبر پر رہے تھے۔اس بار نئی حلقہ بندی کے نتیجے میں ڈسٹرکٹ 7 سے انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، پاکستانی امریکنز اورجنوب ایشیائی افرادکی بڑی تعداد اس حلقے میں ہونے کی وجہ سے یہ امکان بھی تھا کہ وہ زیادہ ووٹ لے سکیں گے مگر یکم مارچ کو ہوئی پرائمری سے وہ دو وجوہات کی بنا پردستبردار ہوگئے تھے۔
ایک تو یہ کہ وہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ڈپٹی نیشنل فنانس چیئرہیں اورکانگریس کاالیکشن لڑنے کے لیے وہ یہ اہم عہدہ چھوڑنے پر گومگو کی کیفیت میں تھے، دوسرے یہ بھی کہ اسلاموفوبیا سے متعلق جس اہم بل پر انہوں نے مطالبات پیش کیے تھے، انہیں ڈیموکریٹ پارٹی نے جوں کا توں منظور کرلیا تھا۔۔ طاہر جاوید دستبردار نہ ہوتے اور اپنی ہی پارٹی کی موجودہ رکن کانگریس کیخلاف پرائمری لڑتے تو یہ خدشہ بھی تھا کہ وہ رکن کانگریس اور انکے بعض ساتھی اراکین کانگریس اسلاموفوبیا سے متعلق بل پر ووٹ دینے سے گریز کرتے۔ بل قانون کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اب پارٹی عہدے کی مدت ختم ہو گی تو وہ اگلے الیکشن میں نسبتاً زیادہ مضبوط قدم رکھنے کی تیاری کررہے ہیں۔
کئی دیگر ریاستوں سے بھی پاکستانی امریکنز قسمت آزما رہے ہیں جبکہ پاکستانی امریکنز کے لحاظ سے بلدیاتی سطح پر اہم ترین مقابلے کیلی فورنیا میں ہوں گے۔
علی سجاد تاج لیگ آف کیلی فورنیا سیٹیز کے صدر ہیں اور مسلسل دوسری بار آرٹیشیا شہر کے میئر ہیں۔ وہ کیلی فورنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈیلیگیٹ بھی ہیں اوروہ تیسری بار میئر کاالیکشن لڑرہے ہیں، یقینی طورپر کہاجاسکتا ہےکہ وہ یہ عہدہ تیسری بار جیت لیں گے۔
فرح خان کیلی فورنیا ہی کے شہر اروین کی میئر ہیں۔ ریاست کے میونسپل الیکشن پارٹی بنیادوں پر تو نہیں ہوتے مگر فرح خان خود کو ڈیموکریٹ کہتی ہیں اور میئر کےعہدے کی دوسری بار امیدوار ہیں۔
صبینہ ظفر کا بھی کیلی فورنیا ہی سے تعلق ہے۔ وہ سن 2018 سے کونسل کی رکن بنی تھیں۔ اگلے ہی برس انہیں وائس میئر مقرر کردیا گیا تھا۔
پاکستانی امریکن کے الیکشن میں حصہ لینے کا رجحان صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد بڑھا ہے، ٹرمپ دور میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ قسمت کا فیصلہ کسی کو سونپنے کے بجائے اس عمل میں خود حصہ لینا ہوگا۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا ہی نہیں کینیا میں مقیم پاکستانیوں میں بہت پہلے بیدار ہوچکا، خیر دیر آید درست آید۔