بلاگ
Time 26 نومبر ، 2022

فوج کی نئی سوچ پر عمل کا چیلنج

جنرل باجوہ نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فوج کیخلاف ’’جعلی‘‘ بیانیہ تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حالیہ ’’بہتان تراشی‘‘ پر تنقید کی/ فائل فوٹو
جنرل باجوہ نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فوج کیخلاف ’’جعلی‘‘ بیانیہ تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حالیہ ’’بہتان تراشی‘‘ پر تنقید کی/ فائل فوٹو

جنرل قمر جاوید باجوہ کے بدھ کے خطاب کو کئی لوگوں نے تاریخی قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ 70 برسوں میں فوج کے سیاسی کردار کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔

پاکستان کو سیاست اور ملک کے دیگر معاملات میں مسلسل بالواسطہ مداخلت کے ساتھ متواتر وقفوں سے تین براہ راست فوجی مداخلتوں کا سامنا رہا ہے اور یہ اقدام فوج کے آئین میں وضع کردہ دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔

جنرل باجوہ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کی کہ اس طرح کی مداخلتیں فوج کی ذمہ داریوں کے دائرے سے باہر ہیں، اور انہوں نے اسے [مداخلتوں کو] نہ صرف فوج کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا بلکہ غیر آئینی بھی کہا۔ تاہم، انہوں نے اپنے ادارے کی اس بات کی توثیق کی کہ فوج اب مزید ایسے اقدامات نہیں کرے گی اور سیاست سے دور رہے گی۔

بعض نے اسے گورباچوف کا لمحہ بھی قرار دیا کہ دیکھیں کیسے ایک آرمی چیف گزشتہ کئی دہائیوں میں پیدا ہونے والے گند کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ ادارہ مستقبل میں ایسا نہیں کرے گا۔

جنرل باجوہ نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فوج کیخلاف ’’جعلی‘‘ بیانیہ تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حالیہ ’’بہتان تراشی‘‘ پر تنقید کی۔

کوئی شک نہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا ذمہ دار خالصتاً فوج کو قرار نہیں دیا جاسکتا، سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس غلطی میں اپنے حصے کا بھی اعتراف کریں۔ لیکن چونکہ فوج نے ماضی میں زیادہ عرصہ تک ملک پر حکمرانی کی ہے اس لیے غلطیوں کی ذمہ داریوں میں اسے زیادہ حصہ ڈالنے کا اعتراف کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے قوم کا سماجی، سیاسی اور معاشی تانا بانا لیروں لیر ہوا ہے۔

سوال یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کا کیا گیا وعدہ پوری سچائی کو سامنے لانے کی ایک حقیقی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے یا نہیں تاکہ ویژن مکمل طور پر تبدیل ہو سکے اور مطلوبہ ضرورت کے مطابق سمت کو درست کرنے، حقیقی اصلاح لانے اور مفاہمت کی کوششوں میں مدد مل سکے۔ یا پھر یہ سب محض باتیں اور صرف پیوند لگانے کی ایک کوشش ہے۔

جنرل باجوہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت میں فوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن پاک فوج کو بہتر کارکردگی کے باوجود تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے [آرمی چیف نے] خود یہ نتیجہ اخذ کیا کہ [تنقید کی] بنیادی وجہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ہے۔

سچ کہیں تو فوج کے قدموں کے نشانات صرف سیاست پر ہی نہیں ہیں۔ پاک فوج کی مداخلت کے نشانات معاشرے کے تقریباً ہر شعبے پر نظر آئیں گے جس سے یہ ادارہ تنقید کے معاملے میں زیادہ زد پذیر ہو جاتا ہے۔

بلاشبہ، فوج کی سب سے بڑی دخل اندازی اس کی قومی بیانیے اور ملک کے سیاسی و سماجی دھارے کو کنٹرول کرنے کی خواہش ہے۔ جس وقت دنیا کے بیشتر ممالک بشمول بھارت (جہاں مودی حکومت کے چند سال چھوڑ کر) کو دیکھیں تو ہمیں خیالات اور آراء کا تنوع، قومی مسائل پر کھلی بحث کے ساتھ یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ ان ملکوں میں قومی پالیسیوں کی تشکیل کیلئے دانشوروں کو آزاد اور منصفانہ رائے دینے کا ماحول فراہم اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں آزاد سوچ کے حامل دانشوروں پر مسلسل ظلم و جبر نے اہم قومی مسائل پر بحث کیلئے دستیاب مواقع کم کر دیے ہیں۔

فوج کی جانب سے لشکری اور جکڑ بند رویہ کی ترویج، یا پھر اسے نافذ کرانے کی کوشش نے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ایسی سوچ کو نافذ کرانے والوں کو بھی نقصان ہوا ہے۔ نہ صرف پاکستان کے نصیب میں سفارتی اور معاشی محاذوں پر پالیسی کی بڑی خامیاں آئیں بلکہ جو کچھ بھی قومی سلامتی کے نام پر کیا گیا اس میں نہ صرف سنگین خامیاں تھیں بلکہ ملک پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگر ان پالیسیوں اور فیصلوں کی ملکیت ملک کی سیاسی قیادت کرلتی اور ان میں معمولی خامی ہوتی تو یہ بہتر چل سکتی تھیں اور ان پر تنقید بھی بہت کم ہوتی کیونکہ لوگ ان پالیسیوں کو عوام کی خواہش سمجھا جاتا۔ سیاسی پشت پناہی کی عدم موجودگی نے مسلح افواج کو عوام اور ان کی امنگوں سے مزید دور کر دیا۔ اس لیے ان پر زیادہ تنقید ہوتی ہے۔

جنرل باجوہ نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے پی ٹی آئی کو 2018 کے انتخابات کے بعد ’’سلیکٹڈ حکومت‘‘ قرار دیا۔ عمران خان نے جواباً موجودہ حکومت کو ʼامپورٹڈ‘ اور امریکا کی زیر قیادت سازش کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی حکومت قرار دیا۔ [جنرل باجوہ نے] سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ ان چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر ملک کیلئے کام کریں۔ لیکن وہ خود کو 2018ء اور رواں سال کے آغاز سے پیش آنے والے واقعات سے مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

حقیقی اصلاح اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرے۔ گزشتہ دہائی، بالخصوص گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آزاد آراء رکھنے والوں نے بدترین ظلم برداشت کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے دھاندلی کے الزامات کو تو ایک طرف رکھیں، 2018ء کے انتخابات سے قبل اور ان انتخابات کے وقت جس طرح میڈیا نے دھونس اور ظلم کا سامنا کیا وہ انتخابی عمل کی ہیرا پھیری میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ انتخابات کے حالات مزید خراب ہوگئے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے جو نام نہاد ہائبرڈ ماڈل تشکیل دیا تھا وہ بُری طرح ناکام ہو رہا تھا۔ معاملات کو پس پردہ رہتے ہوئے کنٹرول کرنے کی سوچ کارآمد ثابت نہ ہوئی۔ اسلئے بنیادی توجہ کارکردگی دکھانے پر نہیں بلکہ تاثر کا بندوبست کرنا پر مرکوز رہی۔ لائن پر سیدھا چلنے والوں اور زبردست پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بننے والوں کو نہ صرف بڑی بڑی مراعات دی گئیں بلکہ ساتھ ہی آزاد آراء کو بھی کچلا گیا۔ کبھی برسوں پرانے ’’قومی مفاد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تو کبھی فورتھ اور ففتھ جنریشن وار فیئر کا مقابلہ کرنے کے نام پر۔

’’نیوٹرل‘‘ ہونے کا ایک مطلب ماضی کی غلطیاں درست کرنا بھی ہے جس میں غیر منصفانہ مراعات واپس لینا اور ساتھ ہی میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے اس پر عائد کردہ پابندیاں ختم کرنا بھی شامل ہے۔ محبت اور احترام چاہئے تو یہ ظلم و ستم سے نہیں ملتا۔ یہ خیالات و نظریات کے تنوع کا احترام کرنے اور انہیں قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے، چاہے ان خیالات پر عدم اتفاق ہی کیوں نہ ہو۔ معاشرے میں متنوع خیالات کی حوصلہ افزائی سے ہی وہ احترام نصیب ہوتا ہے جس کی اس وقت ضرورت ہے۔ اگر ریاست کے تمام ستون آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں تو پاکستان اُس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں وہ اِس وقت پھنسا ہے۔

امید ہی کی جا سکتی ہے جنرل باجوہ کا اظہار خیال محض سبکدوش ہونے والے سربراہ کی جانب سے اپنی متنازعہ میراث چھوڑنے کا اعتراف نہیں بلکہ ادارے کی دانشمندانہ اور گہری سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونا آئندہ قیادت کا کام ہے۔ پھر چیلنج جنرل باجوہ کی بات کرنے میں نہیں بلکہ جنرل عاصم منیر کے عمل کا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔