20 دسمبر ، 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ارکان کے خلاف کارروائی سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے تحریری دلائل جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سیاسی جماعتوں کو ملنے والے فنڈزکی اسکروٹنی کی جاتی ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انکوائری کا اسکوپ محدود ہے جس سے باہرنہیں جاسکتا۔
ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کو فارن فنڈذ پارٹی ڈکلیئرکرنا بھی الیکشن کمیشن کا اختیارنہیں تھا، الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کا نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے، اگر پارٹی کو عطیات میں ملنے والی رقم ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوتواسے ضبط کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یعنی اگر ایسی کسی رقم کا پتہ چلے تو اسے قومی خزانے میں جمع کرایا جائےگا؟ الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے آپ نے غیرملکیوں سے فنڈز لیے، ایک بات تو طے ہے، الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈزضبط کرسکتا ہے۔
بیرسٹر انور منصور نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے آگے معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا لکھا، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر 185 کیسز بنائے گئے ہیں اور ایف آئی اے کارروائی کر رہا ہے، اسے روکا جائے، الیکشن کمیشن نے شوکازنوٹس بھی جاری کررکھا ہے جس میں آج پیش ہوا، ہمارا کہنا یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈڈ پارٹی میں فرق ہے، ملکی سالمیت کیخلاف غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی جماعت کو ہی کالعدم کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کے لیے ملکی سالمیت کیخلاف کام کرنا ثابت ہونا لازم ہے۔
عدالت نے کہا ابھی آپ کے خلاف تو ایسا کچھ نہیں کیا گیا، ابھی تک وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کیخلاف کوئی ریفرنس نہیں بھیجا، اگرحکومت بھیجنا چاہے تو اس کا ایک الگ مکینزم ہے، ریفرنس جائے تو وہاں آپ کو بھی موقع ملنا ہے، ابھی تو آپ کو صرف شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے جس کے جواب میں آپ اپنی ہرطرح کی وضاحت دے سکتے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا آپ شوکازکے جواب میں الیکشن کمیشن کو سب کیوں نہیں بتا دیتے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ ہم نے ایک ابتدائی جواب جمع کروایا اور کہا ہے کہ نوٹس الیکشن کمیشن سے جاری ہی نہیں ہوا، نوٹس ڈی جی لاء کی جانب سے جاری کیا گیا۔
انور منصور خان نے کہا کہ انہیں دلائل کے لیے مزید ایک ہفتے کا وقت چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کے بعد الیکشن کمیشن کو بھی سننا ہے پھرتویہ کیس جون جولائی تک چلا جائےگا، ہم چاہتے ہیں آپ دلائل مکمل کریں اور جلد فیصلہ ہو اسی لیے تحریری دلائل مانگے گئے تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہیں نہیں لکھا پی ٹی آئی ملکی سالمیت کیخلاف ہے، الیکشن کمیشن رپورٹ میں پارٹی کالعدم قراردینے کا ریفرنس بھیجنے کا جوازنہیں۔
کیس کی مزید سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی گئی