Time 11 جنوری ، 2023
پاکستان

ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تودیا ہی نہیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس— فوٹو: فائل
الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تودیا ہی نہیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس— فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو فارن ایڈڈ جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ڈکلیئریشن غلط ہے، سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کا معاملہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ دیکھتا ہے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں ہمیں ٹارگٹ کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تودیا ہی نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے کوکہیں آرڈر،کہیں رپورٹ توکہیں محض رائے کہا جارہا ہے، میری نظر میں یہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ہے۔ 

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اصرار کیا کہ یہ صرف رپورٹ نہیں فیصلہ ہے، الیکشن کمیشن فیصلہ دیے بغیرشوکازنوٹس جاری نہیں کرسکتا تھا۔

بیرسٹر انور منصور نے کہا مسئلہ یہ ہے الیکشن کمیشن نے ’آئی کے‘ کو نوٹس ہی نہیں کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’آئی کے‘ کا کیا مطلب ہے؟ انور منصور نے کہا کہ میری مراد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے تووہ درخواست گزارہی ہیں۔ انورمنصور نے عمران خان کیلئے ’آئی کے‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پرمعذرت کرلی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کوخدشہ ہے عمران خان کواس معاملے پرنااہل کردیا جائے گا؟ الیکشن کمیشن اس شوکاز نوٹس میں کوئی ڈکلیئریشن نہیں دے گا، نا کریمنل کارروائی کرے گا، الیکشن کمیشن کا شوکازنوٹس صرف فنڈزکی ضبطگی کی حد تک ہے، اگرکسی جماعت کے فنڈزضبط ہوجاتے ہیں اورپارٹی اکاؤنٹس میں رقم ہی نہ ہوتو پھرکیا ہوگا؟ 

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا اس پر معاونت کروں گا۔ جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اختیارتھا؟ کس قانون کے تحت آپ نے معاملہ وفاقی حکومت کو ریفرکیا؟ یہ تو ایک جماعت کے خلاف اپنا زہرنکالنے جیسا ہوا کہ معاملہ حکومت کوبھیج دیا، آپ نے قرار دیا ایک بندے کیلئے کہ وہ سچا نہیں،کل کوئی اس پر62 ون ایف کی کارروائی شروع کردے توکیا ہوگا؟ اس دوران پی ٹی آئی نے شوکاز کا کامیاب دفاع کرلیا توکیا ہوگا؟ 

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ پی ٹی آئی نے دفاع کرلیا تو معاملہ ازخود ختم ہوجائےگا، ہم وفاقی حکومت کومعاملہ نہ بھی بھیجتے تو وہ کارروائی کرسکتے ہیں، رپورٹ اب پبلک ہے، اس پر کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہے، ہم کھلے ذہن کے ساتھ پی ٹی آئی کو شوکازمیں سنیں گے۔ 

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سادہ سی بات ہے جس پرکہانی 6 سال سے چل رہی ہے، ہر جماعت نے فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنی ہیں، الیکشن کمیشن مطمئن نہ ہو تو شوکازکرکے فندزضبط ہوتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے کہاکہ  آپ کوشوکازنوٹس جاری کیا گیا، آپ نے شواہد کے ساتھ جواب دے کرانہیں مطمئن کرنا ہے۔ انور منصور نے کہا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ ہم نے جو فیصلہ کرلیا اس سے پیچھے نہیں جائیں گے، ہائیکورٹ الیکشن کمیشن سے کہے کہ وہ اپنی رپورٹ کے آخری دوجملے حذف کردے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ اب انہوں نے تو نہیں کرنا، یہ جوڈیشل ری ویو میں عدالت نے دیکھنا ہے، الیکشن کمیشن اب عدالت کے سامنے بیان حلفی تونہیں دے سکتا کہ وہ کیا کریں گے، الیکشن کمیشن حکام کہہ تو رہے ہیں کہ وہ آپ کوسنیں گے۔ 

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو مطمئن کردے فنڈزممنوعہ نہیں توکیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اپنے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار نہیں ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا تو پھر پی ٹی آئی کو شوکازنوٹس جاری کرنے کا مقصد کیا ہوا؟ آپ کے پاس فیصلہ بدلنے کا اختیارنہیں مگرنئے حقائق سامنے آجائیں تو؟ آپ کو پتہ چل جائے فنڈزممنوعہ نہیں تو فیصلہ تو بدلنا ہوگا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

مزید خبریں :