بگڑتی معیشت اور وفاق، صوبوں کی لڑائی

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام آگے بڑھانے کیلئے ہمیں مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اس کے ساتھ یہ طفل تسلی بھی دے دی کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ75 برسوں سے حکمرانوں کے سخت فیصلوں کا بوجھ ایک عام پاکستانی ہی سہہ رہا ہے۔

ملک میں کوئی بھی ناگہانی صورت ہو یا معیشت ڈگمگاتی ہو، قربانیاں ایک عام پاکستانی ہی سے مانگی جاتی ہیں اور قومی خزانوں پر قابض سیاسی و معاشی اشرافیہ کا بال تک بیکا نہیں ہوتا۔اب وزیراعظم شہباز شریف نے منی بجٹ لانے اور بجلی وگیس کے نرخ بڑھانے کی اصولی منظوری دی ہے تو مزید مہنگائی کا ایٹم بم بھی بے چارے عوام پر ہی گرے گا۔ آج لاہور جیسے شہر میں روٹی کی قیمت 20 روپے اور نان کی 30 سے 35روپے تک ہو گئی ہے، اب ایک مزدور جو دو روٹیوں اور ایک سبزی کی پلیٹ سے پیٹ بھر لیتا تھا وہ کہاں جائے گا؟

 دوسو روپے میں ایک وقت کا کھانا ان پردیسیوں کو پڑرہا ہے جو اپنے گھر سے دور بچوں کیلئے روزی کمانے نکلے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ایک غریب خاندان اور متوسط دونوں کی حالت یکساں ہو چکی ہے۔ بجلی کا بل، سوئی گیس، پانی اور آٹے کی قلت نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ فلور ملز مافیا پر ہاتھ کون ڈالے گا،سب تو نسل در نسل حکومتی ایوانوں میں برا جمان ہیں۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے، دوسری جانب عالمی بینک نے پاکستان کیلئے ایک ارب دس 10 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری موخر کر دی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق پاکستان کے قرض کی منظوری آئندہ مالی سال تک موخر ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ مطالبات پورے ہونے پر یہ قرض بحال ہو جائے گا۔ 

ہم اپنے قریبی دوست ممالک، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے اربوں ڈالرز کے قرضے حاصل کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ قرضے کہاں جاتے ہیں؟عوام کی حالت میں کوئی بہتری کیوں نہ آسکی ۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں 59 فیصد کمی ہوچکی ہے،بڑے بڑے سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں نے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کردیا ہے،ملک میں ادویات ناپید ہو چکی ہیں اور جو دستیاب ہیں وہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ خوردنی تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی کمی کا خدشہ ہے۔ گندم ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے روس سے درآمد کرنا پڑی۔ آٹے کے حصول کیلئےغریب لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔لازم ہے کہ حکومت و اپوزیشن تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کیلئے مربوط پالیسی تشکیل دیں۔ افسوس ملکی حالات کا تو یہ عالم ہے کہ سیاسی قیادت نے اسمبلیوں کی تحلیل کو بھی کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں پی پی کی کامیابی اور پی ٹی آئی کی شکست نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔

معاشی بدحالی اور سیاسی گمبھیر صورتحال نےمعاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ بیروزگاری کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر نے 70 لاکھ ملازمین کو فارغ کیا۔ سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر ملکی ترقی کیلئے حل نکالنا چاہئے۔ مزید برآں مغربی سرحد پر اشتعال انگیزی بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان کے بعد ایرانی بارڈر سے پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروںپر حملہ لمحہ فکریہ ہے۔ بے شک اس میں ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ ہے۔بھارتی شر انگیزی کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں اور دنیا کے سامنے فاشسٹ مودی کے مذموم عزائم بے نقاب کئے جائیں۔

 دوسری جانب مہنگائی کے ہاتھوں تڑپتے عوام کی دادرسی کی بجائے ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد اپنی بے تکی اور بچگانہ باتوں اور رویوں سے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔آئیے پاکستانی قوم کےخیر خواہوں کے چند بیانات ملاحظہ فرمائیں۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی طارق بشیر چیمہ نے پریس کانفریس کے دوران فرمایا کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد مہنگائی وفاق کا مسئلہ نہیں ہے۔ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔موصوف نے مزید فرمایا کہ وہ (یعنی وفاقی حکومت) صرف اسلام آباد کی حد تک آٹے کی قیمت کے حوالے سے جوابدہ ہیں، مزید فرمایا کہ آٹے اور گندم کی قیمتوں کا تعین صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔فلور ملز مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔فلور ملز اپنی صلاحیت کے مطابق آٹا نہیں بناتیں۔

موصوف نے مرغی کی آسمان کو چھوتی قیمتیں کم کرنے کا یہ حل بتایا کہ مرغی کھانا چھوڑ دیں،میں مرغی نہیں کھاتا،جی ایم او سویابین کا پولٹری میں استعمال بیماری پھیلا رہا ہے۔ یاد رہے پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپنے آخری احتجاج کا عنوان ہی مہنگائی مارچ رکھا تھا۔اگر مان لیا جائے کہ مہنگائی صوبائی معاملہ ہے تو پھر صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان اور بحالی کیلئے وفاقی حکومت کس حیثیت سے پوری دنیا میں کشکول لے کر چندے مانگ رہی ہے؟ اسی طرح اگر مہنگائی اور ملکی معیشت کی خراب صورتحال کی ذمہ دار صرف اور صرف وفاقی حکومت ہے تو پھر صوبائی حکومتوں سے یہ سوال ضرورپوچھناچاہئے کہ صوبائی حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔