بلاگ
Time 16 فروری ، 2023

عدالتی فیصلے مذاق کس نے بنائے؟

آج کل کچھ سیاست دان آئین کی بالادستی کیلئے شیر کی دھاڑ اور ہاتھی کی چنگھاڑ بنے ہوئے ہیں۔عمران خان، اسد عمر اور فواد چودھری کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے پنجاب میں نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے حکم پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا ؟میں ذاتی طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کا حامی ہوں کیونکہ آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔

بڑے ادب سے گزارش ہے کہ آج کل جو سیاسی دوست آئین کی بالادستی کیلئے اپنا گلا پھاڑ رہے ہیں وہ ہر عدالتی فیصلے کے بارے میں اتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیوںنہیں کرتے ۔عمران خان کو ملک میں آئینی بحران صرف اس وقت نظر آتا ہے جب ان کا اپنا سیاسی مفاد خطرے میں ہو۔جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کئی عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑا دیں اور جب ہم نے کہا کہ آئین سے مت کھیلو تو ہمیں غلیظ گالیوں سے نوازا گیا۔آج ہمیں عدلیہ کے احترام کا سبق وہ لوگ پڑھا رہے ہیں جنہوں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کاریفرنس فائل کیا اور ان کی کردار کشی کیلئے سرکاری وسائل استعمال کئے۔بہت جلدعمران خان یہ کہہ دیں گے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں نے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دائر کرایا تھا۔

اس اخبار کا ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے یہ ریفرنس فائل ہونے سے پہلے عمران خان کو خبردار کیا تھاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ خان صاحب نے میرا کالم شائع ہونے کے بعد مجھے وزیر اعظم آفس میں بلا کر کہا کہ میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا لیکن کچھ دن بعد صدر عارف علوی نے یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا ۔یہ درست ہے کہ اس ریفرنس کے ماسٹر مائنڈ باجوہ تھے لیکن عمران خان اور عارف علوی بھی اس میں شریک تھے۔

 عارف علوی نے بطور صدر عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں 77آرڈیننس جاری کئے جن میں پپکا ترمیمی آرڈیننس 2022ءبھی شامل تھا جو آزادیٔ اظہار کے خلاف ایک سیاہ قانون تھا اس قانون کو عدالت نے معطل کر دیا لیکن یہ قانون عمران خان اور فواد چودھری کی میڈیا دشمن سوچ کا آئینہ دار تھا۔آج جب ہم فواد چودھری کے خلاف 124اے کے ظالمانہ قانون کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بڑے مظلوم ہیں بلکہ ہم یہ مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ جب فواد چودھری نے اس ظالمانہ قانون کو علی وزیر کے خلاف استعمال کرنے کی حمایت کی تھی تو ہم نے ان کو غلط کہا۔ہم ہر نوآبادیاتی قانون اور سیاسی مفاد پرستی کے خلاف ہیں ۔ہماری لڑائی افراد سے نہیں بلکہ اس منفی سوچ سے ہے جو ہرحکومت میں چہرہ بدل کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔

آج کچھ عدالتی فیصلوں پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرنے والے عمران خان بھول گئے کہ جب 2019ءمیں آئین کی دفعہ چھ کو پامال کرنے کے الزام میں ایک عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو خان صاحب کی کابینہ کے ارکان نے اس عدالت کے ایک جج کو پاگل قرار دیاتھا۔عمران خان اگر واقعی آئین کی بالادستی کے حامی ہیں تو پہلے یہ اعتراف کریں کہ وہ جنرل باجوہ کے ’’شریک جرم‘‘ رہے ہیں ۔کاش کہ وہ باجوہ کے فرنٹ مین فروغ نسیم کی بجائے بیرسٹر علی ظفر کو اپنا وزیر قانون بناتے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔جب خان صاحب کے حکم پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف پر 124اے کے تحت بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا تو بیرسٹر علی ظفر نے اس کی مذمت کی۔خان صاحب کو یہ مذمت بہت بری لگی تھی لیکن آج عمران خان کے ہر مقدمے میں ان کی وکالت بیرسٹر علی ظفر کرتے ہیں۔ اگر کل کو دوبارہ اچھا وقت آیا تو عمران خان کے اردگرد فروغ نسیم ٹائپ لوگ نظرآئیں گے بیرسٹر علی ظفر جیسے مخلص اور اصولی لوگ صرف برے وقت میں اچھے لگتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے جس مقدمے میں نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے اس مقدمے میں بھی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ہیں۔الیکشن کمیشن کو آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانا چاہئے اور عدالتوں کو بھی یہ تاثر دور کرنا چاہئے کہ وہ نواز شریف کے خلاف تو سازش کا حصہ بن جاتی ہیں لیکن عمران خان کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہیں۔

جس ملک میں عدالتیں خود اپنے ہی چیف جسٹس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کریں وہاں دوسروں سے عدالتی فیصلوںط کے احترام کی توقع نہ کریں۔2015ء میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین کی دفعہ 251کی روشنی میں تین ماہ کے اندر اندر اردو کو سرکاری زبان کےطورپر نافذ کرنے کا حکم دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئندہ سے عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں کا بھی لازمی اردو ترجمہ کرایا جائے گا اور آئین کی دفعہ 251کی خلاف ورزی اگرجاری رہی تو کسی بھی شہری کو قانونی چارہ جوئی کا حق ہو گا۔ آٹھ سال گزر گئے اس فیصلے کی نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ خود سپریم کورٹ نےبھی خلاف ورزی کی۔جواد ایس خواجہ نے یہ فیصلہ اردو میں لکھ کر مثال قائم کی لیکن ان کے بعد سپریم کورٹ نے اردو کو نظرانداز کر دیا ۔اس فیصلے میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں عطااللہ مینگل اور خیبر پختونخوا میں مولانا مفتی محمود کی صوبائی حکومتوں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کیلئے اقدامات کئے تھے لیکن پنجاب، سندھ اور وفاق نے کچھ نہیں کیا۔تحریک انصاف،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو آئین کی بالادستی صرف اس وقت یاد آتی ہے جب ان کا سیاسی مفاد خطر ے میں ہوتا ہے۔

 اپریل 2023ء میں آئین پاکستان کی تشکیل کے پچاس سال پورے ہو رہے ہیں ۔ان پچاس برسوں میں جوسیاسی و غیر سیاسی حکومتیں دفعہ 251پر عملدرآمد نہیں کر سکیں وہ سب قابل مذمت ہیں۔ میں ایک دفعہ پھر اپنے پڑھنے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ آئین میں انتخابات کے التوا کی کوئی گنجائش نہیں ، انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں لیکن جب بھی انتخابات ہوں تو ووٹ صرف انہیں دیں جو حکومت میں آکر آئین سے کھلواڑ نہ کریں اور تین مہینے کے اندر اندر اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔