23 فروری ، 2023
پاکستانی سیاست میں ایکشن اور سسپنس اتنا بڑھ چکا ہے کہ عوام کی اکثریت اس ’’فلم‘‘ میں دلچسپی کھوتی جا رہی ہے ۔جب فلم شروع ہوئی تو کھڑکی توڑ رش نظر آ رہاتھا کیوں کہ امریکی سازش کے ڈائیلاگ نے زبردست سسپنس پیدا کر دیا تھا اور غلامی سے آزادی کے نعروں نے بھی خوب توجہ حاصل کی تھی لیکن پھر اس فلم میں بار بار یوٹرن آنے لگا۔آزادی مارچ کے مناظر بھی متاثر کن نہ تھے ،وزیرآباد میں قاتلانہ حملے کے ایک منظر نے فلم میں خاصی سنسنی پیدا کی۔ خیال تھا کہ اب یہ فلم صرف کھڑکی توڑ نہیں بلکہ ریکارڈ توڑ بزنس کریگی۔
آزادی مارچ کا اختتام ڈی چوک اسلام آباد میں انقلاب کی کامیابی کے اعلان سے ہونا تھا لیکن عمران خان راولپنڈی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد واپس لاہور چلے گئے۔انکا خیال تھا کہ جیسے ہی دو صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹیں گی تو پورے ملک میں نئے انتخابات کا اعلان ہو جائیگا۔دو صوبائی اسمبلیاں تو ٹوٹ گئیں لیکن تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان کر دیا، اس یوٹرن پر تماشائیوں کو مایوسی ہوئی اور وہ گھروں کو واپس جانے لگے۔
فلم کو ناکامی سے بچانے کے لئے صدر عارف علوی میدان میں آئے ،انہوں نے 9اپریل کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا اعلان کرکے الیکشن کمیشن کو حیران کر دیا ۔اس اعلان کے بعد خدشہ پیدا ہوا کہ یہ فلم کھڑکی توڑ رش تو قائم نہ رکھ سکی لیکن اس فلم کے واقعات کوئی ’’آئین توڑکلائمیکس‘‘ نہ پیداکر دیں۔
پھر چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفیٰ سامنے آیا، کچھ تشویش بڑھی لیکن چوہدری پرویز الٰہی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے موڑ نے فلم میں کامیڈی کا ماحول پیدا کرکے تماشائیوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کر دیا ۔تماشائی جانتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کسی زمانے میں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو تھے ۔اب ان سے تحریک انصاف کا صدر بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ فواد چوہدری نے جب انہیں صدر بنانے کا اعلان کیا تو کچھ تماشائیوں کو تحریک انصاف کا آئین یاد آ گیا۔
اس آئین کو یکم اگست 2022 کو کچھ ترامیم کے بعد پارٹی کے ایک اجلاس میں منظور کیا گیا تھا ،اس آئین میں مرکزی چیئرمین کے ساتھ وائس چیئرمین کا عہدہ موجود ہے۔ آئین میں سینئر نائب صدر اور نائب صدر بھی ہے لیکن مرکزی صدر کا عہدہ آئین کی دستاویز میں نہیں ہے۔صوبائی صدور کے عہدے موجود ہیں لیکن کوئی عہدہ خالی نہیں۔
مطلب یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کیلئے ایک ایسے عہدے کا اعلان کیا گیا ہے جو تحریک انصاف کے آئین میں ہی موجود نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ چوہدری صاحب کی حالیہ خدمات کے عوض تحریک انصاف اپنے آ ئین میں ترمیم کرکے بغیر کسی الیکشن کے انہیں صدر بنا دے۔
مسلم لیگ (ن) اگربغیر الیکشن کے مریم نواز کیلئے عہدے کا اعلان کر سکتی ہے تو تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کے لئے عہدہ کیوں تخلیق نہیں کر سکتی؟ آخر ان پارٹیوں میں فرق ہی کتنا ہے ؟انہیں نہ پارٹی کے آئین کی پروا نہ پاکستان کے آئین کی پروا ہے ۔
جس فلم کا ذکر ہو رہا ہے اس میں عوام کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون ؟سب کردار ولن جیسے ہیں اس فلم میں نہ حق و باطل کی لڑائی ہے نہ ظلم و ناانصافی کا مقابلہ ہے اور نہ ہی امیر و غریب کی کشمکش ہے سب کردار ابن الوقت، ظالم اور امیر ہیں ۔
کبھی مل کر جنرل باجوہ کیلئے تالیاں بجاتے ہیں کبھی مل کر جنرل باجوہ کو برا بھلا کہتے ہیں ایک دوسرے کو جیل بھیجنا ان سب کا محبوب مشغلہ ہے اور آئین کی خلاف ورزی ان کرداروں کی ایک مشترکہ خصوصیت ہے ۔ان کرداروں کی ذاتی لڑائیوں کے پیچھے کچھ اداروں کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں اور اسی لئے آڈیو لیکس بھی سامنے آ ر ہی ہیں ۔نفرت کا یہ عالم ہے کہ بھائی کو بھائی سے لڑا دیا گیا ہے۔
کوئی بھائی بول رہا ہے کوئی فی الحال خاموش ہے۔ اسد عمر چیخ کر کہتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پر آئین سے غداری کا مقدمہ بنائیں گے ۔زبیر عمر کہتا ہے کہ تحریک انصاف بار بار آئین توڑ رہی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے صدر عارف علوی کی طرف سے دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان کو بھی آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا ہے ۔آئین کے ساتھ کھلواڑ کا جو سلسلہ اپریل 2022ء میں شروع ہوا تھا وہ بدستور جاری ہے۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ تھا لیکن عمران خان نے آئین کی دفعہ پانچ کی آڑ میں تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو ملک دشمن اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا ۔ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی ایک رولنگ کی بنیادپر قومی اسمبلی توڑ دی گئی اور صدر عارف علوی نے اس اقدام کی توثیق کر دی۔
سپریم کورٹ نے قاسم خان سوری کی رولنگ اور صدر و وزیراعظم کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی۔ صدر عارف علوی کے ایک ایکشن کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے انہیں محتاط رہنا چاہئے تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے جس تین رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کو بحال کیا اس بینچ کے ایک معزز رکن جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے لکھا کہ اس سارے معاملے پر آئین کی دفعہ چھ کے اطلاق کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے۔
شہباز شریف کی کابینہ کے ارکان کی اکثریت صدر عارف علوی، عمران خان، فواد چوہدری اورقاسم خان سوری پر دفعہ چھ کے تحت بغاوت کا مقدمہ بنانا چاہتی ہے کیونکہ جس غیر ملکی سازش کو بنیاد بنا کر فواد چودھری نے قومی اسمبلی میں دفعہ پانچ کا ذکر کیا تھا اس غیر ملکی سازش کے متعلق خود عمران خان یوٹرن لے چکے ہیں۔ دوسری طرف اسد عمر موجودہ حکومت پر دفعہ چھ لگانا چاہتے ہیں کاش کے اسد عمر اس وقت بولتے جب ان کی کابینہ نے ایک ڈکٹیٹر مشرف پر دفعہ چھ لگانے والے جج وقار سیٹھ کا فیصلہ مسترد کیا تھا۔اپریل 2022 میں عمران خان نے جو آئین شکنی شروع کی وہ 2023 میں بھی جاری ہے۔
دو صوبوں میں انتخابات کے التوا کی کوئی ٹھوس وجہ فی الحال سامنے نہیں آئی۔ شہباز شریف حکومت کی اس آئین شکنی پر بہت سے پاکستانی دل گرفتہ ہیں، اسی دل گرفتگی کو طوفان بنانے کے لئے عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ عوام کو جیل بھرنے کا درس دینے والے خان صاحب نے خود لاہور ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت لے لی ہے تو پھر یہ فلم سپرہٹ کیسے ہو سکتی ہے؟ہیرو کی انٹری کے بغیر فلم کامیاب نہیں ہو گی۔
ہیرو کو ہاتھ میں گنڈاسا پکڑ کر قتل وغارت نہیں کرنی بلکہ ہاتھ میں آئین کی کتاب اٹھا کرسب کو بتانا ہے کہ اس کتاب کا مذاق اڑانا بند کرو، آئین توڑنے والوں کے خلاف جوبھی ایکشن لے گا وہی پاکستان کا ہیرو ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔