06 مارچ ، 2023
واہ خان صاحب واہ۔ آپ نے تو ہمارا دل ہی باغ باغ کر دیا۔ ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے روس کے خلاف تقریر کی تھی۔
خان صاحب کا یہ بیان سن کر میں نے فوری طور پر تاریخ دیکھی۔ یہ 3مارچ 2023ء کو جمعہ کا دن تھا اور خان صاحب زمان پارک لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران باجوہ صاحب کے خلاف شعلہ بیانی میں مصروف تھے۔
باجوہ صاحب کی جس تقریر پر کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا گیا یہ تقریر 2اپریل 2022ء کو اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ کے آخری دن کی گئی۔ اس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے آئین کی دفعہ 243کے تحت افواج پاکستان وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ تصور ہوتی ہیں اور اگر آرمی چیف کی تقریر آئین کی دفعہ 244 کے تحت ان کے حلف کی خلاف ورزی تھی تو عمران خان وزارتِ دفاع کے ذریعے باجوہ صاحب کے کورٹ مارشل کا حکم دے سکتے تھے۔ اس وقت تو ہمارے خان صاحب خاموش رہے لیکن گیارہ ماہ کے بعد وہ باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کر رہے ہیں جب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں۔
آپ کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ فروری 2022ء کے آخری ہفتے میں عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا جس دن عمران خان ماسکو پہنچے اسی دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ یوکرین ان چند ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے اگست 2019ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان روس سے واپس آئے تو باجوہ نے انہیں تجویز دی کہ آپ کو یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت کرنی چاہئے۔
عمران خان نے یہ تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت کی طرح اس معاملے میں نیوٹرل رہنا چاہئے۔ باجوہ کا مسئلہ بھارت یا کشمیر نہیں تھا ان کا مسئلہ ایک اور ایکسٹینشن حاصل کرنا تھا اور وہ امریکہ کو خوش رکھنا چاہتے تھے۔ عمران خان نے انکی بات نہ مانی تو انہوں نے چند روز بعد اسلام آباد میں ایک کانفرنس کے دوران روس کی مذمت کر دی جس پر خان صاحب نے صرف اپنے دانت پیسے اور کچھ نہیں کیا۔
ایک طرف تو عمران خان نے باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا اور دوسری طرف وہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں میں تو ان سے ملنا چاہتا ہوں لیکن اگر وہ نہ ملنا چاہیں تو میں کیا کروں۔
دراصل صدر عارف علوی اس ملاقات کیلئے بہت کوشش کر چکے ہیں لیکن کوشش کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ جنرل عاصم منیر اگر عمران خان سے ملیں گے تو پھر وہ الزامات کدھر جائیں گے جو خان صاحب فوج کے حاضر سروس افسران پر ایک نہیں کئی مرتبہ لگا چکے ہیں؟
ویسے میں خان صاحب کی جگہ ہوتا تو کبھی جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہ کرتا۔ یہ وہی عاصم منیر ہیں جنہوں نے جون 2019ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کو بتایا کہ ان کے ارد گرد موجود کچھ افراد کرپشن میں ملوث ہیں تو عمران خان سیخ پا ہوگئے۔ انہوں نے فوری طور پر جنرل باجوہ سے کہا کہ عاصم منیر کو ہٹا کر فیض حمید کوآئی ایس آئی کاچیف بنایا جائے ۔
باجوہ صاحب کی مدت ملازمت چار ماہ میں پوری ہونے والی تھی اور وہ ایکسٹینشن کیلئے عمران خان کی دن ر ات خوشامد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے خان صاحب کی فرمائش پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا اور عاصم منیر کو ہٹا کر فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا۔
فیض حمید نے اس مہربانی کے عوض پہلے تو وزیر اعظم کو ایکسٹینشن کیلئے راضی کیا اور پھر مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور پارلیمینٹ میں موجود دیگر جماعتوں (سوائے سنیٹر مشتاق احمد خان اور محسن داوڑ) سے بھی ایکسٹینشن کی حمایت حاصل کرلی۔
ایک ایکسٹینشن کے بعد باجوہ دوسری ایکسٹینشن لینا چاہتے تھے اور خان صاحب کو پریشر میں رکھنے لگے۔ خان صاحب کو وہ پریشر نہیں بھولتا اور آج وہ باجوہ کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے ہیں ان کی زبان سے باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ سن کر میرا دل اس لئے باغ باغ ہو گیا کہ جب آئین سے غداری کے مقدمے میں جسٹس وقار سیٹھ نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر مشرف کو سزا سے بچایا تھا۔ آج خان صاحب اپنے شریک جرم کا تو کورٹ مارشل کراناچاہتے ہیں لیکن ان جرائم کا اعتراف کرنے سے کترا رہے ہیں جو انہوں نے باجوہ کے ساتھ مل کر کئے۔
ان دونوں کا ایک مشترکہ جرم یہ ہے کہ انہوں نے مل کر پاکستان کو آئی ایم ایف کا غلام بنایا۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختار کیا جائے تاکہ ڈالر کی قیمت پر حکومت کا کنٹرول ختم کیا جائے۔اس وقت کی اپوزیشن کے علاوہ کچھ حکومتی ارکان بھی اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل پاس کرانے کے مخالف تھے لیکن عمران خان اور باجوہ کی مشترکہ خواہش پر جنرل فیض نے آئی ایس آئی کے ذریعے ارکان پارلیمینٹ پر دباؤ ڈال کر یہ بل منظور کرادیا۔
عمران خان کی طرف سے جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ دراصل اپنے ہی خلاف مقدمہ کھولنے کی درخواست ہے۔ باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطلب ہے کہ پروجیکٹ عمران خان کی تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔
یہ تحقیقات جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام سے ہوتی ہوئی جنرل فیض حمید تک پہنچیں گی۔
باجوہ کے خلاف ایک گواہی تو آچکی ہے، چوہدری پرویز الٰہی خود بتا چکے ہیں کہ پچھلے سال انہیں پی ڈی ایم چھوڑ کر عمران خان کا ساتھ دینے کا مشورہ جنرل باجوہ نے دیا تھا۔ یہ مشورہ آئین کی دفعہ 244 کی خلاف ورزی تھا، بات یہیں پر نہیں رکے گی شہباز شریف بھی جانتے ہیں کہ کب کب اور کہاں کہاں باجوہ نے دفعہ 244 کی خلاف ورزی کی۔ بلاول بھٹو زرداری کو بھی بتانا ہو گا کہ انہیں دبئی بلا کر کس نے کہا کہ اپنے و الد صاحب کو طبی بنیادوں پر پاکستان سے باہر بھیج دیں؟ مولانا فضل الرحمان بھی بتائیں گے کہ انہیں آرمی ہاؤس میں مہنگے پرفیوم کے تحفے کیوں دیے جاتے تھے؟
یہ کورٹ مارشل بہت ضروری ہے۔ عمران خان ہمت پکڑیں اور اعلان کریں کہ انکی پارٹی دوبارہ حکومت میں آئی تو جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل کریگی پوری قوم کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔