30 مارچ ، 2023
سیاستدان تو پہلے سے دست و گریبان ہیں جس کی وجہ سے سیاسی بحران ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اسی سیاسی تقسیم اور مفاد پرستی کی سیاست کی وجہ سے معاشی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن کے اندراندر الیکشن کے نہ ہونے سے ملک کو ایک آئینی بحران کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے لیکن ہمارا المیہ دیکھیں کہ اسی کیس میں ایک ایسے عدالتی بحران نے بھی سر اُٹھا لیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
سپریم کورٹ کے جس فیصلہ کی بنیاد پر صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کروانے کا شیڈول دیا تھا اُس بنیاد کو سپریم کورٹ کے جج حضرات نے خود ہی یہ کہہ کر کھوکھلا کر دیا کہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ تو اکثریتی تھا ہی نہیں۔
دو روز قبل اس سلسلے میں دو جج حضرات کا ایک اختلافی نوٹ سامنے آیا جس نے سپریم کورٹ میں موجود ججوں کے درمیان تفریق کو، جسے کئی لوگ ججوں کے مابین چپقلش سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں، ایک ایسے نکتے پر پہنچا دیا جس کے بارے میں پہلے نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔
ان جج حضرات نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو اس انداز میں چیلنج کیا کہ نہ کوئی لحاظ کیا نہ کوئی نرمی دکھائی۔بڑی دلیری سے کہہ دیا کہ چیف جسٹس کا ون مین پاور شو نہیں چل سکتا، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ شاہی عدالت نہ بنے۔
یہ بھی کہہ دیا کہ چیف جسٹس کے پاس بے لگام طاقت ہے جس کا وہ لطف اُٹھاتے ہیں لیکن عدلیہ کا وقارپست ہو رہا ہے اور اُسے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ ان جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کے استعمال کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے، عدالت عظمیٰ کو ہائیکورٹ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہئے۔ ایک عرصہ سے سپریم کورٹ کے چند اہم ترین جج حضرات چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹو لینے، بینچ بنانے اور کیس فکس کرنے کے اختیارات پر سوال اُٹھا رہے تھے لیکن اس فیصلے نے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے، چیف جسٹس پر عدم اعتماد کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
اس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومتی اتحاد فوری ایکشن میں آیا اور پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کردیا جس کا مقصد سپریم کورٹ کے جج حضرات کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹوایکشن لینے، بینچ بنانے اور کیس فکس کرنے کے لامحدود اختیارات کو Institutionalise کیا جائے گا۔
اسی دوران پارلیمنٹ میں حکومتی اراکین اور وزیراعظم شہباز نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات پر سوال اُٹھائے اور یہاں تک کہہ دیا کہ دوسروں کو مشاورت کا مشورہ دینے والے خود مشورہ کیوں نہیں کرتے۔
میڈیا میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس سیاستدانوں کے درمیان لڑائی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن جو لڑائی سپریم کورٹ کے اندر چل رہی اُس پر اُن کی نظر نہیں۔ تحریک انصاف اس حکومتی اقدام کو سپریم کورٹ پر حملہ خیال کر رہی ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے اور ان اختیارات کو جج حضرات کی کمیٹیوں کے ذریعے استعمال کرنے کیلئے کی جانے والی قانون سازی پر سپریم کورٹ کی طرف سے ممکنہ ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس اور اُن کے ہم خیال جج حضرات پارلیمنٹ کی ایسی قانون سازی کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے کر ایسے کسی بھی قانون کو ہی ختم کردیں، جس سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے آسکتے ہیں اور یہ امر بحرانوں میں گھرے پاکستان کو ایک اور بڑے بحران میں دھکیل سکتا ہے۔
پاکستان کی بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اتحاد کی ضرورت ہے، ہم تقسیم در تقسیم اور نئے نئے بحرانوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکمراں، سیاستدان، جج اور جرنیل موجودہ صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں اور پاکستان کو نئے سے نئے بحرانوں میں دھکیلنے کی بجائے موجودہ معاشی، سیاسی، انتظامی، آئینی اور عدالتی بحرانوں سے نکالنے کیلئے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات اور اپنی اپنی میں یعنی اَنا کی قربانی دیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے اپنے مفادات اور اپنی اپنی میں میں کے لئے ہم پاکستان کا کوئی بڑا نقصان کر بیٹھیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔