حصہ آخر : پاکستان کا ریاستی نظام کیسا ہو؟

ملک میں کون سا نظام رائج کیا جائے جو خاص کر عوام کی نمائندگی کرتا ہو اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو— فوٹو: فائل
ملک میں کون سا نظام رائج کیا جائے جو خاص کر عوام کی نمائندگی کرتا ہو اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو— فوٹو: فائل

اب ان نظاموں پر بات کرنے کے بعد سوال پاکستان کیلئے ہے کہ اس ملک میں کون سا نظام رائج کیا جائے جو خاص کر عوام کی نمائندگی کرتا ہو اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے چلتے ہیں چین کے شہر بیجنگ میں جہاں چند دن قبل ایک فورم منقعد ہوا جس میں دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک اور علاقوں سے 300 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی۔

اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں

"جمہوریت ، بنی نوع انسان کی مشترکہ اقدار" کے موضوع پر دوسرے بین الاقوامی فورم میں متعدد ممالک کی سابق سیاسی شخصیات ، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں اور دانشوروں نے "جمہوریت اور عالمی حکمرانی"، "جمہوریت اور تہذیب و تمدن کا تنوع" ، "جمہوریت اور جدت کاری کی راہ" سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ 

فورم کے شرکاء نے کہا کہ جمہوریت کی مختلف راہیں ہیں۔ ایسا کوئی ماڈل نہیں جو ساری دنیا کیلئے کارآمد ہو اور نہ ہی کسی ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہاں رائج جمہوریت کو کسی دوسرے ملک پر مسلط کرے۔ اس فورم میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ مختلف مغربی ممالک اور تنظیموں کی جانب سے "استبدادیت کے خلاف جمہوریت" اور " آمریت کے خلاف آزادی" جیسے بیانات کا فروغ دوسرے ممالک کی اقدار اور نظام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے اور سفارتی امور میں جب آپ اس عمل کے مرتکب ہوتے ہیں تو تعلقات اور عوام کے فائدے کی بجائے آپ بنی نوع انسان کو مزید تفریق کا شکار کر دیتے ہیں جو انسانیت کیلئے نقصان دہ ہے۔

سو بہتر ہے کہ جمہوریت کے معیار کے تعین میں اسے ممالک کو تقسیم کرنے کی لکیر بنانے سے گریز کیا جائے۔

مغربی ممالک کی طرح کسی بھی ملک کو اپنے نظام پر بات کرنے کامکمل حق حاصل ہے۔ اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت کا پوری دنیا میں مکمل نفاذ ہی اس دنیا کی کامیابی ہے اور یہی سب سے بہترین نظام ہے۔

دنیا کے سامنے اس نقطہ پر دلائل کیلئے ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں۔ عرب ممالک میں عوام اگر اپنے نظام سے مطمئن ہیں اور انہیں غربت ،افلاس ،دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا نہیں ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہاں مغربی جمہوریت کا پرچار اور اسے نافذکرنے کیلئے بے شمار کوششیں کی جائیں؟

اسی طرح روس اور چین دو ایسے بڑے ممالک ہیں جہاں ان کا اپنا بنایا گیا اور اختیار کیا گیا ایک نظام ہے جس میں سیاست بھی ہے اور انتخاب بھی، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ ان ممالک میں رائج نظام نے دنیا کی کل آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت، افلاس اور بھوک سے مرنے نہیں دیا بلکہ انہیں غربت سے نکال کر دنیا کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

لہٰذا اگر کامیابی کا ایک یہ نمونہ ہمارے سامنے ہے تو کیا قباحت ہے کہ اس نظام پر بات نہ کی جائے اور اسے اپنے طور پر، اپنے ملکی حالات، اپنے مسائل اور اپنی ضروریات کے تحت اختیار نہ کیا جائے ؟

یہ بھی ذہن میں رہے کہ کسی بھی نظام کو اختیار کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہ ہو کہ اسے کلی طور پر اختیار کرلیا جائے بلکہ اپنی تاریخ، تجربے اور اپنے تقاضوں کے مد نظر اس میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ چینی طرز کی جمہوریت نے لاکھوں لوگوں کو خوش حال زندگی دی ہے اور گزشتہ 10 سالوں میں 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے جس کا اعتراف خود اقوام متحدہ کر چکا ہے۔

دنیا میں اگر مختلف تہذیبیں، ثقافتیں اور معاشرے ہیں، تو صرف ایک جمہوری نظام ہی کیوں رائج ہو؟ جمہوریت کے مختلف راستے اور نقطہ نظر ہیں۔ ہر ملک اور معاشرے کو اپنے جغرافیائی حالات اور تاریخی پس منظر کے مطابق جمہوریت کا اپنا راستہ منتخب کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جمہوریت کا مقصد عوام کو فائدہ پہنچانا ہونا چاہیے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر اس بحث کو دیکھا جائے تو ملک میں خواندگی کی کم شرح اور افراد کی جدید تربیت کے فقدان کے باعث یہ توقع رکھنا مضحکہ خیز ہے کہ عوام موجودہ جمہوری نظام میں منتخب ہونے یا انتخابات کی صورت میں درست فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔

ساتھ ہی انتخابی طریقہ کار اور اس میں لا تعداد سقم نے اسے مزید ناممکن بنا دیا ہے۔افسوس یہ بھی ہے کہ 80 سالوں کے قریب ہونے والے اس ملک کی زندگی میں یہاں جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں اس انتخابی نظام میں اصلاحات پر بھی متفق نہیں۔سیاست کی بنیادی نرسری طلبہ یونینز اور لیبر یونینز پر کئی برسوں کی پابندی نے نئی اور پرانی نسل کو سیاسی شعور سے نابلد رکھا ہے۔ سیاسی اختلاف اور سیاسی حریف کو برداشت کرنے اور سیاست کو خدمت سمجھنے کا جذبہ تو یوں سمجھیں کہ پیدا بھی نہیں ہوا۔

نچلی سطح پر عوامی نمائندگی اور عوام کے مسائل کا حل یا ان میں کسی ایسے رہنما کا پیدا ہونا بھی ان حالات میں خام خیالی ہی سمجھا جائے گا اور پاکستان کے معروضی حالات بھی اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ ملک میں موجود نظام کی خامیوں اور خرابیوں کو جاننے کے بعد اب اس پر مزید انحصار کر نے کی بجائے ایک بڑی سطح پر رائے عامہ جاننے اور اسے بنانے کیلئے بحث کا آغاز کیا جائے جس میں پاکستان کے حالات اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی ایسے نظام کو اختیار کرنے کی کوشش کی جائے جو اس کے مسائل حل کرنے کی اصل طاقت رکھتا ہو اور اس بات کا ادراک کیا جائے کہ ریاست کو چلانے کیلئے دنیا کی تقلید نہیں بلکہ ملکی حالات اور نظام کی پٌائیداری ضروری ہے۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظر یہ تو کسی حد تک قابل بحث امر ہے کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی اب ناگزیر ہے لیکن ایک سوال اب بھی باقی ہے کہ وہ نظام کیسا ہوگا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔