حصہ اول: پاکستان کا ریاستی نظام کیسا ہو؟

حصہ اول: پاکستان کا ریاستی نظام کیسا ہو؟

پاکستان میں تقریباً گزشہ ایک سال کے عرصے میں الیکشن کروانے اور نہ کروانے کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہ مطالبہ ہے کہ الیکشن جلد سے جلد ہونے چاہئیں تا کہ ملک کو درپیش مشکلات کا حل نکالا جا سکے اور دوسری جانب حکومتی اتحاد (پی ڈی ایم )کا یہ مؤقف ہے کہ فی الوقت ملک میں الیکشن کروانا ممکن نہیں۔

ایک تیسرا مکتبہ فکر بھی ہے جس کا ماننا ہے کہ کہ الیکشن کا ہونا نہ ہونا اس وقت تک بےمعنی ہے جب تک ملک میں رائج نظام کی اصلاح نہ کی جائے۔ یہ طبقہ فکر ابھی تعداد میں کم ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ جمہوری نظام عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی عام آدمی کو اس نظام کا حصہ بننے دیتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسے کم سیاست دان نظر آتے ہیں جو براہ راست عام عوام سے تعلق رکھتے ہوں اور اعلیٰ مرتبوں اور عہدوں تک پہنچے ہوں۔سو اگر یہ نظام عام عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عام آدمی کو اقتدار تک نہیں پہنچا سکتا تو یہ سوال ضرور پیدا ہو تا ہے کہ کیا چہرے بدلنے سے ملک کے حالات بدل جائیں گے؟

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تارٰیخ میں زیادہ مدت تک سیاست ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جن کی اولین ذمہ داری سیاست نہ کرنا ہے لیکن اگر اس نظام میں اب ان کے علاوہ سیاست کی گنجائش نظر نہیں آتی تو اس نظام کے بدلنے کے مطالبے میں بھی کچھ وزن دکھائی دیتا ہے کیوں کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام جمہوری نہیں رہا۔

ملک پاکستان میں ایک طویل عرصے تک فوجی حکومتیں بھی رہیں جس میں ہر فوجی حکمران نے مختلف تجربات کیے۔ یہاں بنیادی جمہوریتوں کا نظام رائج کیا گیا اور ون یونٹ کا نظام رکھ کر صدارتی طرز حکومت اپنایا گیا۔ پھر ملک ہی دولخت ہو گیا۔ نہ بنیادی جمہوری نظام کام آیا اور نہ ہی ون یونٹ پر کبھی عمل درآمد ہو سکا۔پھر ایک اور فوجی حکومت نے نامزد اراکین پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ بنا دی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار بنایا تاکہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے لیکن اس تجربے کا نتیجہ بھی بے سود رہا۔

جمہوریت کی بنیادی اکائی لوکل گورنمنٹ سسٹم ہے مگر کبھی کسی جمہوری یا غیر جمہوری حکومت نے انتظامی، مالیاتی اور انصاف کی فراہمی کے اختیارات مقامی سطح پر منتقل  نہیں کئے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اپنی سیاست اور سیاسی بصیرت کے اظہار میں ناکام رہی ہیں اور غیر سیاسی قوتیں سیاست میں شامل رہی ہیں تو پھر اس ملک کا نظام کیا ہو نا چاہیے ؟ کیوں کہ اب تک کے ملکی حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ اس نظام سے چھٹکارا ہی شاید اس ملک کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نظام کیسا ہونا چاہیے؟

عام طور پر مغربی جمہوریت کو دنیا بھر میں ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ قدیم یونان میں براہ راست جمہوریت کے عمل سے لے کر 13 ویں صدی میں برطانوی پارلیمنٹ میں پیدا ہونے والی نمائندہ جمہوریت کے ماڈل میں امریکہ،برطانیہ،جرمنی ،آسٹریلیا،ڈنمارک اور اس طرح کے دیگر ایک جیسے نظریات رکھنے والے ممالک یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے ہاں رائج نظام ہی بہترین ریاستی نظام ہے اور اس کا ثبوت دنیا میں ان کی ترقی اور کامیابی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ اس لیے ہے کہ وہ اس نظام کے تحت اپنے عوام کو سہو لیات دینے میں کامیاب رہے ہیں اور ریاستی امور میں عوام کے حقوق کی پاسداری ان کے ہاں نمایاں ہے۔

حال ہی میں امریکہ میں منعقد ہونے والی "ڈیموکریسی سمٹ" بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

دوسری جانب ایک بڑی تعداد عرب ممالک سمیت دیگر کچھ ممالک کی بھی ہے جہاں ان کا اپنا بادشاہی نظام ہے جو سالوں سے ان کے وجود اور وہاں کے عوام کی خوش حالی کا ضامن ہے۔

1917 میں روس میں ابھرنے والا سوشلسٹ نظام تیسرا نظام ہے جو ایک طویل عرصے تک دنیا پر غالب رہا اور اب بھی اس کے جدید آثار اس خطے میں گہرے ہیں جہاں سے اس کا آغاز ہوا اور چوتھا نظام اسلامی نظام ہے جس کی تاریخ تو شاندار ہے لیکن پھر بھی اسے اپنانے میں اسلامی ممالک کئی وجوہات کی بنا پر تذبذب کا شکار ہیں۔

دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ ممالک میں جو نظام رائج ہے وہ مغربی طرز جمہویت ہے اور اسے دنیا کی خوشحالی اور ترقی کی بنیادی اکائی کہا جاتا ہے لیکن ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرورل اسسٹنس(آئیڈیا) کے مطابق یوکرین میں جنگ اور معاشی بحران نے دنیا بھر میں جمہوریت کی صورتِ حال کو متاثر کیا ہے اور دنیا کے نصف سے زائد جمہوری ممالک میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔

جمہوریت و سیاست میں گراوٹ سے مراد ماہرین یہ لے رہے ہیں کہ انتخابات کی شفافیت پر سوال بڑھ رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی خطرے میں ہوسکتی ہے اور شہریوں کی آزادیوں پر حد بندیاں بڑھتی جاری ہیں۔ان ممالک میں امریکہ، برازیل، ہنگری، بھارت، موریشس ، پولینڈ کے علاوہ ایل سلواڈور بھی شامل ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سیاسی تقسیم بڑھتی جارہی ہے، ادارے غیر مؤثر ہورہے ہیں اور شہری آزادیوں کو خدشات لاحق ہیں۔انٹر نیشنل آئیڈیا کی رپورٹ میں 173 ممالک کا جائزہ شامل ہے جن میں سے 104 جمہوری ممالک ہیں اور 52 ممالک میں جمہوریت کو گراوٹ کا شکار بتایا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں جمہوریت کے لیے اٹھنے والی احتجاجی لہر کو گزرے ایک دہائی ہوچکی ہے لیکن مشرقِ سطیٰ دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں اور سوائے عراق، اسرائیل اور لبنان کے کہیں جمہوریت نہیں۔

اس رپورٹ میں جمہوریت کی گراوٹ کی وجہ دنیا بھر میں مشہور سیاست دانوں کا بڑھنا ہے اور عوامی مقبولیت کی بنیاد پر ان کی سیاسی مہمات سے جمہوریت یا تو جمود کا شکار ہے یا ابتری کی۔

اس رپورٹ کو یہاں زیر بحث لانے کا مقصد یہ نقطہ اجاگر کرنا تھا کہ دنیا کے بیشتر ترقی پزیر ممالک جس جمہوریت کی تقلید میں ہیں وہاں کی اپنی جمہوریت کو گراوٹ کا شکار بتایا جا رہا ہے۔

عرب ممالک کی بات کی جائے تو وہاں کے حالات دنیا بھر سے الگ ہیں۔کیوں کہ نظام کوئی بھی ہو اس کا مقصد عوام کی فلاح اور ان کی سہولیات ہیں تو ان ممالک کی معیشتیں قدرتی تیل پر مبنی ہونے کی بنا پر یہاں نظام کی تبدیلی کی تحریک یا اس سے متعلق گفتگو بے اثر ہی رہتی ہے۔روس اور چین دو ایسے بڑے ممالک ہیں جہاں نظام بڑی مغربی قوتوں سے مختلف ہےلیکن خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے اپنا نظام خود وضع کیاہے اور کسی اور نظام کی تقلید نہیں کی ۔

نوٹ: اس مضمون کا دوسرا حصہ جلد شائع کیا جائے گا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔