خبردار !کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے

بیجنگ میں رہتے ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا ہے تو میں اس بات پر کئی بار حیران ہوا ہوں کہ یہاں آپ کی کوئی چیز کبھی گم نہیں ہوتی— فوٹو: فائل
بیجنگ میں رہتے ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا ہے تو میں اس بات پر کئی بار حیران ہوا ہوں کہ یہاں آپ کی کوئی چیز کبھی گم نہیں ہوتی— فوٹو: فائل

’خبردار !کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔‘ پاکستان میں کئی بڑے شہروں میں آپ کو سفر کے دوران یہ جملہ دیکھنے کو ملے گا۔

کبھی کسی دیوار پر اور کبھی کسی خاص بورڈ پر۔ یہ تحریر پڑھتے ہی پڑھنے والا ایک خاص طرح سے چوکس ہو جاتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ نظر آس پاس لگے چھوٹے چھوٹے کیمروں کو ڈھونڈنے لگتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ دیکھ لیں کون دیکھ رہا ہے بلکہ اس لیے کہ جہاں کوئی دیکھ رہا ہے وہاں دیکھ لوں اور جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو  وہاں کہوں ’آ بیٹا،، اب دیکھتا ہوں تجھے۔‘

آپ یہ تجربہ کر لیں۔ جب جب آپ کسی کو کہیں گے کہ بھائی محتاط رہنا ،کیمرہ لگا ہوا ہے تو وہ اپنی تمام فطری صلاحیتوں اور جبلتوں کے برعکس ایسا منظم اور شائستہ برتاؤ کرنے لگے گا کہ آپ عش عش کر اٹھیں گے۔ میں نے جب یہ تجربہ کیا تو اپنے کئی دوستوں کو تو پہچان بھی نہیں پایا۔ خیر۔مذاق بر طرف۔ کیوں کہ اب بیجنگ میں رہتے ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا ہے تو میں اس بات پر کئی بار حیران ہوا ہوں کہ یہاں آپ کی کوئی چیز کبھی گم نہیں ہوتی۔ آفس میں لنچ بریک میں اکثر میں اپنا لیپ ٹاپ، موبائل اور دیگر قیمتی سامان چھوڑ جاتا ہوں اور جب واپس آتا ہوں تو تمام چیزیں اسی حالت میں ہوتی ہیں جیسے آپ انہیں چھوڑ کر گئے ہو تے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان سے ایک دوست یہاں تشریف لائے تو انہیں ایک تقریب میں مدعو کیا گیا۔ تقریب میں پہنچنے کے بعد وہ کچھ دیر ہی بیٹھے تھے کہ اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میرا فون کسی نے نکال لیا ہے۔ ہم سب دوست مسکرائے اور انہیں کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ اچھی طرح دیکھ لیں یہیں کہیں ہو گا لیکن وہ بضد رہے۔ ایک ساتھی تقریب کے آرگنائزر کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ ہمارے ایک دوست کہہ رہے ہیں کہ ان کا موبائل فون یہاں کہیں گم ہو گیا ہے۔ آرگنائزر نے بہت اطمینان سے جواب دیا ،جناب آپ اپنے دوست سے کہیں کہ وہ یہاں آنے سے قبل اگر راستے میں کہیں رکے تھے تو وہاں معلوم کرلیں۔ ممکن ہے وہ وہاں بھول گئے ہوں۔جب تک میں یہاں اعلان کر وا دیتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں اگر کہیں ان سے ان کا موبائل گرا ہوتا تو ابھی تک منیجمنٹ کے پاس پہنچ جاتا۔ رہا سوال کہ کسی نے لے لیا ہو گا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

ہمارے ساتھی واپس آئے اور من و عن یہ الفاظ اس دوست کو بتائے۔ انہوں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں کچھ دیر کے لیے ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور پر رکا تھا۔ شاید مجھے وہاں دیکھ لینا چاہیے۔ اس خیال سے وہ باہر نکلے اور اس ڈپارٹمنٹل اسٹور پہنچے۔ ابھی داخل ہی ہوئے تھے کہ کاؤنٹر پر موجود شخص نے مسکراتے ہوئے ان کا موبائل انہیں واپس کیا۔مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور پریشانی کا اختتام۔

اس طرح کے کئی اور واقعات نےمجھے یہ سوچنے پر مجبور کیاکہ اگر یہی سب کچھ پاکستان میں ہوا ہو تا تو کیا ہو تا؟ کیا موبائل واپس مل جاتا؟ کیا میں اپنے آفس میں اپنے کمرے میں اپنا کوئی سامان اس بے فکری سے بغیر لاک کے چھوڑ کر  جا سکتا ہوں؟ مجھ سمیت تمام پڑھنے والوں کا جواب بھی "نہیں" ہوگا۔

ایسا کیوں ہے؟ پاکستان میں عوام کی اکثریت مسلمان ہے۔ ریاست کا بھی اعلانیہ مذہب اسلام ہے۔ اسلام کی کیا تعلیمات ہیں؟ ایک مسلمان کا اپنے رب سے کیا تعلق ہے؟َ اس تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ بچپن سے ہی ہمیں پڑھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہمارے ہر عمل، ہر حرکت کو اللہ دیکھ رہا ہو تا ہے۔ وہ ذات انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ دلوں کی آواز سن لیتا ہے اور یہ کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ رہا ہو لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہو تا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ اور اس طرح کے سارے عقیدے ہمارے ذہنوں میں اور ہمارے دلوں میں کس حد تک موجود ہیں؟

معذرت لیکن مجھے لگتا ہے کہ سب صرف زبانی باتیں رہ گئی ہیں۔ ہم جب یہ کہ رہے ہوتے ہیں اور سن رہے ہوتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم دل سے اس دیکھنے والے کے خوف اور اپنے نامہ اعمال کے بارے میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سوچتے۔یہ سوچ اس عقیدے اور حقیقت کی نہیں بلکہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے۔ ہائے افسوس، ایمان سوچ میں بھی کزور ہو چکا ہے۔ بولنے اور عمل کرنے کا تو اب سوال ہی نہیں۔

بیجنگ میں رہتے ہوئے 6 ماہ کے اس عرصے میں، میں نے اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک "پرام" رکھی ہوئی دیکھی ہے۔ یہ کبھی کسی بلاک کے سامنے ہوتی اور کبھی کسی اور بلاک کے سامنے  لیکن اس تمام عرصے میں سوائے اس کے کہ بچوں کے کھیلنے کی وجہ سے اس کی جگہ تبدیل ہوئی، اسے کوئی لے کر نہیں گیا۔ ایک عام خیال ہے کہ کسی ملک سے آیا کوئی خاندان، اپنی مدت مکمل ہونے پر یہاں سے جاتے ہوئے اسے بلڈنگ کے باہر لوگوں کے استعمال کے لیے چھوڑ گیا تھا اور تب سے اب تک، عمارت کی انتظامیہ اور اس میں رہنے والوں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا کیوں کہ انہیں اس کی ملکیت نہیں معلوم۔کیسا عجیب طرز عمل ہے؟کیا میں اور آپ پاکستان مٰیں اس کا تصور کر سکتے ہیں؟کچھ دیر کو کسی کو یہ خیال آیا بھی ہو کہ میں اسے اٹھا لوں تو مجھے یقین ہے کہ وہ یہ سوچ کر رک گیا ہو گا کہ کہیں اس کے مالک نے شکایت کردی اور تحقیقات کے نتیجے میں ،میں کیمرے میں نظر آگیا تو کتنی شرمندگی ہو گی اور سزا الگ۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید آغاز میں یہی تصور ہو گا کہ کوئی دیکھ نہ لے اور آہستہ آہستہ یہ تصور چینی عوام کی عادت بن گیا کہ راہ میں یا دفتر میں یا کسی عام جگہ پر کوئی بھی کسی اور کی چیز کی جانب نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی ہاتھ بڑھاتا ہے۔

میرے دل سے کوئی پوچھے تو شدید تکلیف ہو تی ہے۔ سوچتا ہوں، وہ نہ کہوں جو کہنا چاہتا ہوں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اب بھی نا کہا تو کب کہوں گا اور کون کہے گا؟

افسوس یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ ہم مسلمانوں کے خدا کو شاید جانتے بھی نہیں لیکن وہ خدا سے ڈرنے والے سارے کام کرتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ جرم کے ارتکاب پر سزا کا نظام اگر مضبوط ہو تو لوگ کیمرے کی آنکھ سے بھی ڈرتے ہیں۔ اس ملک میں راہ چلتے آپ کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر بھی لگ جائے تو آپ کو مجرم گردانا جاتا ہے۔ اس ملک میں چاہے کتنی دیر کیوں نہ ہو رہی ہو لیکن قطار میں لگنا اور اپنی باری کا انتظار کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کے حقوق جڑے ہیں اور اس ملک میں کسی اور کے مال کو چوری کر لینا ایسا سنگین جرم ہے جس کے ارتکاب کی غلطی کوئی نہیں کر رہا۔

اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی دن چوری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے بغیر نہیں گزرتا۔ اس کا ہر گز  یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ مذہب اسلام کی تعلیمات کمزور ہیں ، لیکن ہاں ، انسان ضرور کمزور ہے۔ ہمیں ہماری تعلیمات تو یہ سکھاتی ہیں کہ جہاں کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا وہاں بھی ایک ذات ایسی ہے جو آپ کو دیکھ رہی ہے بلکہ وہ ذات تو ایسی ذات ہے جو آپ کے دل کے خیال کو بھی جان لیتی ہے۔ اگر تو ہمارا یہی ایمان ہے جو کہ بظاہر ہم سب کا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس ذات کے احکامات پر ہمارا ایمان یا عمل نہیں؟

اُس نے تو صاف صاف کہا ہے کہ وہ قیامت کے روز ہمارے ایک ایک عضو سے ہمارے بارے میں گواہی طلب کرے گا اور جرم ثابت ہونے پر اتنی شدید سزا ہے کہ دنیاوی سزا اس کے آگے کچھ نہیں لیکن ہم کتنے بد بخت ہیں کہ سب جانتے بوجھتے بھی اس عذاب کو اپنے حصے میں لکھوا رہے ہیں جسے سہنا تو دور اس کے بارے میں سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 تو  یہ سب دیکھ کر معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا اپنے خدا اور روز قیامت حساب کتاب پر ایمان کمزور ہے جبکہ  کیمرے کی آنکھ اور اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقیات زیادہ مضبوط ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔