26 اپریل ، 2023
موسمی بیماریوں جیسے نزلہ زکام، بخار یا کھانسی وغیرہ کے بعد خطرہ ہوتا ہے کہ جراثیم ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہ ہو جائیں اور اس کے لیے گھر میں کافی صفائی کی جاتی ہے۔
مگر کیا بیماری کے بعد کسی فرد کو اپنا ٹوتھ برش بھی تبدیل کرلینا چاہیے؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ٹوتھ برش کا براہ راست جراثیموں سے سامنا ہوتا ہو۔
اس سوال کا مختصر جواب ہاں ہے۔
طبی ماہرین کی جانب سے بیماری کے بعد صحت یاب ہونے پر ٹوتھ برش تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
خاص طور پر اگر منہ میں چھالوں، فلو، گلے کی خراش یا نزلہ زکام کا سامنا ہوا ہو۔
جراثیم ٹوتھ برش میں 24 گھنٹے سے کئی ہفتوں تک زندہ رہ سکتے ہیں، اس کا انحصار بیماری کی قسم یا بیکٹریا کی اقسام پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر فلو وائرس ایک ٹوتھ برش پر 3 دن تک زندہ رہ سکتا ہے، البتہ بیماری سے سنبھلنے کے بعد ٹوتھ برش کے استعمال سے دوبارہ بیمار ہونے کا خطرہ بہت زیادہ نہیں ہوتا۔
مگر پھر بھی بیمار ہونے سے بہتر ہے کہ احتیاط کرلی جائے۔
ماہرین نے اس حوالے سے چند دیگر نکات بھی بیان کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب آپ بیمار ہوں تو اس وقت ٹوتھ برش بدلنے سے گریز کریں اور صحت یاب ہونے پر ہی یہ فیصلہ کریں۔
ویسے سننے میں تو یہ عجیب محسوس ہوتا ہے مگر بیمار افراد کے ٹوتھ برش کو کھلی فضا میں چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ٹوتھ برش پر زندہ رہنے والے بیشتر جراثیم آکسیجن سے مر جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب ٹوتھ برش مکمل خشک ہوتا ہے تو اس پر موجود بیشتر بیکٹریا کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس ٹوتھ برش کیپ کے استعمال سے بیکٹریا کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر آپ ٹوتھ برش کو پھینکنا نہیں چاہتے تو اسے ڈس انفیکٹ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے ٹوتھ برش کو اینٹی بیکٹریل ماؤتھ واش میں بھگو سکتے ہیں، بیکنگ سوڈا کا پیسٹ اور سرکے کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
ماہرین نے صحت مند افراد کو بھی ٹوتھ برش کو روزانہ کی بنیاد پر صاف کرنے کا مشورہ دیا ہے اور نیم گرم پانی سے دھو کر رکھنے کا کہا ہے۔
ماہرین کے مطابق آپ بیمار ہوں یا نہ ہوں، ٹوتھ برش کو ہر 3 ماہ بعد تبدیل کر دینا چاہیے کیونکہ وقت کے ساتھ اس پر جراثیم جمع ہونے لگتے ہیں۔
خاص طور پر جب ٹوتھ برش پر موجود رنگین ریشوں کا رنگ مدھم ہو جائے تو یہ اس کے بدلنے کی نشانی ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔