بے نظیر بلاول، بے نظیر اتحاد

بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف پر اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کر کے میثاق جمہوریت کی روح تازہ کر دی ہے اور ایک نئی نظیر قائم کی ہے۔

یہ قرارداد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا کوئی لیڈر بھی پیش کر سکتا تھا تاہم پیپلزپارٹی کے چیئرمین کی جانب سے یہ قرارداد پیش کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا پارلیمان واقعی آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے نہ کہ ان طاقتوں کے ساتھ جو آئین اور جمہوریت دونوں ہی کو لپیٹنے کے درپے رہی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانا بھی پیپلزپارٹی ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا اور یہ آصف زرداری ہی کا چمتکار تھا کہ اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ مگر اب الیکشن سر پہ ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے کے سبب لوگ حکومت سے نالاں ہیں، ایسے میں پیپلزپارٹی کئی بہانے بنا سکتی تھی، کنی کترا سکتی تھی لیکن نازک ترین لمحے پر ایسا نہیں کیا گیا۔

اسی لیے بلاول بھٹو کا یہ اقدام سیاسی بالغ پن اور بے نظیر ہے اور اس جمہوری روایت کا تسلسل ہے جو نوازشریف اور بے نظیربھٹو نے سن 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے قائم کی تھی، اس میثاق کی 17ویں سالگرہ دو ہفتے بعد یعنی 14 مئی کو منائی جائے گی۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف لندن میں کیے گئے اس میثاق جمہوریت کی عمر اس قدر طویل ہوگی، اُس وقت یہ تصور محال تھا، عام خیال یہی تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے ہٹاتے ہی ماضی کی یہ دونوں حریف جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف پھر سے صف آرا ہوجائیں گی اور طالع آزماؤں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنی گدی مضبوط کرنے کی کوشش کریں گی۔

ان سترہ برسوں میں کئی موقعوں پر ایسا ہوا بھی کہ میثاق جمہوریت، کاغذ کے ایک بے وقعت پرزے کی مانند نظر آیا۔

میثاق جمہوریت پر دستخط کے ایک ہی سال بعد یعنی سن 2007 میں مجھے بے نظیر بھٹو کے خصوصی انٹرویو کا موقع ملا تھا۔ وقت نے اسے جیونیوز کیلئے ان کا آخری انٹرویو بنا دیا۔

بے نظیر بھٹو نے ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف پر اس انٹرویو میں طنز کے وہ تیر چلائے تھے کہ لگتا تھا دونوں کے درمیان میثاق جمہوریت نام کی کوئی چیز کبھی تھی ہی نہیں۔

بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ جنرل پرویز کی آمریت میں میاں نوازشریف چالیس صندوق لے کر پاکستان سے سعودی عرب گئے تھے اور وہ کس منہ سے جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگانے والی مسلم لیگ ن کو جواب دیتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے اپنے شوہر کو مرد حُر قرار دیا تھا۔

ایک دوسرے پر یہ حملے دو طرفہ تھے۔ لوگ میاں شہباز شریف کے وہ جملے بھی نہیں بھولے جو انہوں نے لاہور میں ایک عشرہ پہلے خطاب کے دوران ادا کیے تھے ۔

بقول شہباز شریف 'ن لیگ نے جس طرح ڈینگی کو مارا، اُسی طرح زرداری کو بھی مار دے گی'۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ ، 'زرداری کو کیا پتہ کہ قوموں کی غیرت کیا ہوتی ہے ، تم کیا جانو کہ چند کوڑیاں لے کر اغیار کے آگے اپنی قوم کا سودا کرکے کوئی قوم خود دار نہیں بنتی، اس شخص کو صرف رشوت کا پتہ ہے ، کرپشن کا پتہ ہے۔سیٹ خالی کردو ورنہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اسی چوک پر الٹا لٹکائیں گے۔'

اب انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ شیر وشکر نظر آئیں گی یا ایک دوسرے کو پھر سڑکوں پر کھینچنے کی بڑھکیں ماری جائیں گی، یہ تو شاید اگلے چند ماہ میں واضح ہوگا۔

اتنا ضرور ہے کہ دونوں جماعتوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ ان دونوں کی سیاسی بقا میثاق جمہوریت ہی میں ہے۔

بھلا ہو کسی کی چھڑی کا سہارا لے کر مقابلے پہ آئے بلے کا، قوم کو یہ بھی بہت اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی چڑیا ہوتی کیا ہے، وہ پھڑ پھڑاتی کیوں ہے یا چہک چہک کر آزادی کے گیت گا گا کر اپنے منہ میاں مٹھو بنتی کیوں ہے۔

حکومتی اقدامات سے جمہوریت کا یہ پودا تناور درخت بنے گا یا کسی برگد کے سائے تلے ہی پروان چڑھتا رہے گا، یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا، یہ طے ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے قائدین نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دو مختلف سیاسی جماعتیں ہونے کے سبب پالیسی امور پر اختلافات اپنی جگہ، کسی کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے کے دست وگریباں نہیں ہوں گے۔

اسی لیے حکومت کے سر پہ ہتھوڑے کے وار روکنے کی خاطر بلاول بھٹو کی جانب سے ڈھال فراہم کیے جانے کو نیک شگون تصور کیا جانا چاہیے۔

شاید یہ اس بات کا بھی موقع ہے کہ کم سے کم پنجاب اور خیبر پختونخوا کے حوالے سے ہی سہی ، اتحادی جماعتیں اپنی انتخابی حکمت عملی ایسی طے کریں کہ بے نظیر اتحاد قائم ہو، ایک دوسرے کے ووٹ کاٹے گئے تو بلی کے بھاگوں پھر چھیکا گر جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔