مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش

ملک میں جاری سیاسی افراتفری کے اثرات ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ہماری سماجی روایات تیزی سے دم توڑ رہی ہیں۔ باہمی احترام کا رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کے حوالے سے جو قدیم تصورات تھے،منہدم ہو رہے ہیں۔

’’مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘یہ قدیم خیال اب تیزی سے روبہ زوال ہے۔ سیاسی مخالفین کو مختلف مقدمات میں الجھانا تو ایک پرانی روایت رہی ہے لیکن اس روایت میں تشدد کاشامل ہونا ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ پنجاب کا چوہدری خاندان سیاست کے میدان میں ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ وضع داری اور روایتی شرم و حیا کے مناظر اس خاندان میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی میں چوہدری ظہور الٰہی نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھے۔ سیاسی مخالفین کیلئے ان کا دستر خوان سجا رہا۔ جبکہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین نے بھی رواداری،تواضع اور باہمی احترام کی روایات کو فروغ دیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے دورِ ابتلا میں میاں نواز شریف کی مخالفت کے باوجود بطور وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے ان کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔ محترمہ کلثوم نواز کے لئے چوہدری خاندان کے گھر کے دروازے کھلے رہے۔ مشرف کے دور حکومت میں حمزہ شہباز کو سہولتوں کی فراہمی میں چوہدری پرویزالٰہی نے نمایاں کردار ادا کیا۔

 حالیہ دور میں متعدد مرتبہ انکے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے انہوں نے مخالفت بھی مول لی۔ اس طرح کے متعدد واقعات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔ان سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔انکے طرز سیاست سے عدم اتفاق رکھنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ان کے طرز حکومت سے بھی بہت سوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ جناب آصف علی زرداری کے’’مبارک قدم‘‘ کی وجہ سے اگرچہ اس خاندان میں پھوٹ پڑ چکی ہے، شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی راہیں جدا ہو چکی ہیں لیکن اسکے باوجود ان کا سماجی احترام اپنی جگہ پر موجود ہے۔

رجیم چینج آپریشن کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کیساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ان کے کہنے کے مطابق اسمبلی توڑی اور پھر باقاعدہ طور پر ان کی جماعت میں شامل ہوگئے۔انکے اس سیاسی فیصلے سےاگرچہ کچھ قوتیں ناراض بھی ہیں۔تاہم اس کے باوجود یہ کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے فہم کے مطابق مناسب فیصلہ کرے۔

تاہم گزشتہ دنوں ان کی رہائش گاہ کے باہر جو مناظر پوری دنیا نے ٹی وی چینلز کے ذریعے 

دیکھے،ان کی کسی طور بھی تائید نہیں کی جا سکتی۔تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں ایسا انداز اختیار کیا گیا جیسے کسی خطرناک مجرم کی گرفتاری کیلئے یہ کارروائی کی جا رہی ہو۔اگر ان کی گرفتاری مطلوب تھی تو اس کیلئے وہی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہئے تھا جو پورے ملک میں دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے کیا جاتا ہے۔

اگر سرچ وارنٹ پاس تھے تو نارمل انداز میں بھی عمل درآمد کیا جا سکتا تھا۔موجودہ حکمرانوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ ایک معمول کے کام کو بھی غیر معمولی آپریشن کی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عمران خان سے عدالتی وارنٹ کی تعمیل کرانی ہو (جو کہ ایک کانسٹیبل کا کام ہے) اس کیلئے ایس پی کی سربراہی میں پوری فورس کو متحرک کرنا یا زمان پارک پرسینکڑوں اہلکاروں کے ساتھ دھاوا بولنا یہ اسی ’’اہلیت‘‘ کی طرف نشاندہی کرتا ہے،اور اب چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ کا طویل محاصرہ اسی ذہنیت کا عکاس ہے۔

کیا پرویز الٰہی کا جرم یہ تھا کہ وہ سیاست میں تحمل برداشت اور بردباری پر یقین رکھتے ہیں۔؟کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں؟کیا ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑی؟صوبے کے تمام بڑے عہدوں پر فائز رہنے والے ایک 77 سالہ شخص کے گھر پر اس انداز میں یلغار کہاں کی دانشمندی ہے؟بکتر بند گاڑی کے ساتھ گھر کا گیٹ توڑ کر کیا پیغام دیا جا رہا ہےجبکہ گھر میں خواتین بھی موجود تھیں؟

اس واقعہ کے بعد وفاقی حکومت نے اس آپریشن سے لاتعلقی کا اظہار کیانگراں وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ وہ اس وقت عمرے کی غرض سے سعودی عرب میں ہیں، آئی جی پولیس کے متعلق بھی بتایا گیا کہ وہ بھی عمرہ کیلئے حرمین شریفین کے سفر پر ہیں تو پھر کون ہے جو اس سارے عمل کا ذمہ دار ہے،حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سے کونسی قوتیں خوش نہیں، کیا چوہدری پرویز الٰہی کو کسی نافرمانی کی سزا دی جا رہی ہے ؟سیاستدانوں کے مذاکرات کو اس عمل کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس اشتعال انگیز عمل کے باوجود حکومت کیساتھ مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ تاہم تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہےکہ عدم برداشت کا ماحول اب کیا رخ اختیار کریگا۔

 وقت آگیا ہے کہ سیاستدان بھی اپنی صفیں درست کریں،رولز آف گیم ترتیب دیں،شخصی احترام کی روایات بحال کریں، ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو معمول پر لانے کی سعی کریں،یہ ملک سب کا ہے۔اپوزیشن اور حکومت نےاسی ملک میں رہنا ہےتو پھرکیوں یہاں پر سانس لینا محال کیا جا رہا ہے؟ مقدمے،چھاپے، جیل، حوالات، نیب، اینٹی کرپشن، صرف سیاستدانوں کا ہی مقدر کیوں ہیں؟ انتخابات کی تاریخوں پر مذاکرات کرنے والے سیاستدانوں کو ان تلخ حقائق پر بھی مشترکہ موقف اختیار کرنا پڑیگا، ورنہ اگلی باری کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔