مذاکرات کے بعد...

سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات انجام کے قریب ہیں۔ جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا تھا کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ یہ مذاکرات ثمر بار ہو سکیں۔ پی ٹی آئی کا مذاکرات کے تیسرے دور کے بعد سپریم کورٹ میں مذاکرات کی رپورٹ جمع کرانے کا مطلب بھی یہی ہے کہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے۔ 

کیونکہ ایک طرف حکومت کا واضح موقف ہے کہ نہ وہ اس تین رکنی بنچ کو تسلیم کرتی ہے نہ ہی وہ مذکورہ بنچ کے فیصلوں کو مبنی بر انصاف مانتی ہے تو پھر اسی بنچ کی ہدایت پر مذاکرات کے لئے بیٹھنے کا کیا مطلب ہے۔ پی ٹی آئی وہ جماعت ہے کہ اسی عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف اپنے کارکنوں کے ذریعے برطانیہ میں نہ صرف احتجاج کروائے بلکہ معزز جج صاحبان کی ہر مذموم طریقے سے ہتک اور توہین کروائی۔ اسی طرح اگر فوج آئینی دائرہ اختیار کے مطابق حکومت وقت کے ساتھ چلتی ہو تو کہا جاتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں لیکن اگر فوج اس آئینی دائرے سے اس جماعت کی منشا کے مطابق نکلنے سے انکار کرتی ہے تو اس اہم ترین ادارے اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کمربستہ ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ قابل تعریف ہے جب تک وہ اس جماعت کی خواہشات کے مطابق چلے۔

بات مذاکرات کی ہو رہی تھی۔ مذاکرات میں شامل پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی دونوں فریق صرف اتمام ِحجت کر رہے تھے ورنہ دونوں فریقین کو پہلے سے ایک دوسرے کی سوچ، مقاصد اور مذاکرات کے نتیجے کا علم تھا۔ پی ٹی آئی بوجوہ ستمبر سے قبل انتخابات چاہتی ہے جبکہ حکومت ستمبر گزار کے انتخابات کی خواہاں ہے۔

 آخر فریقین کیلئےستمبر کی اتنی اہمیت کیوں ہے، اس بارے میں باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ آنے والے ماہ ستمبر میں ایک اہم عہدے پر تبدیلی ہونی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے دونوں فریق سمجھتےہیں کہ انتخابات پر یہ تبدیلی بہت حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک فریق انتخابات اور قائم مقدمات پر اس کے خلاف اور دوسرا فریق اپنے حق میں بہتر تصور کرتا ہے۔ اس لئے دونوں کیلئے ماہ ستمبر اہم ہے۔ طرفین کی سوچوں میں یہ تصور بعض عدالتی فیصلوں کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ اب تک ہونے والے وہ عدالتی فیصلے کہاں تک آئین اور قانون کے مطابق ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے جن کو آئین اور قانون کے ماہرین ہی بہتر سمجھتے ہیں لیکن فریقین اور عوام کی سوچوں پر بہرحال ان فیصلوں کے اثرات کو نظرانداز کرنا بھی مشکل ہے۔ ان تصورات کی وجہ سے ہی مذاکرات کا مثبت نتیجہ نکلنا شاید ممکن نہیں ۔

 اب اس صورتحال میں مذاکرات کے تیسرے جس کو آخری دور کہا جاتا رہا اور اس دور کے بارے میں پی ٹی آئی کا عدالت کو حتمی نتیجے سے پہلے ہی آگاہ کرنے کی کوشش کا مطلب یہی ہے کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ سوچ اور بیانات کو دیکھتے ہوئے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ فریقین کے درمیان تلخیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب صلح کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ اس کے دو واضح ثبوت عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے بعض سینئر رہنمائوں کے بیانات ہیں۔ عمران خان نے حسب عادت و روایت دبائو بڑھانے کے آخری حربے کے طور پر ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن)کے بعض رہنمائوں نے ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے بلکہ اس بار آر یا پار کا اشارہ بھی دیا ہے۔ 

جس کا مطلب یہ ہے کہ آگے جوبھی ہوگا وہ فیصلہ کن ہوگا۔ مذاکرات کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن کا واضح موقف بھی اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کو سیاست دان ہی نہیں مانتے یا وہ عمران خان کو سیاست کا غیر ضروری عنصر سمجھتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے۔ مولانا کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر سیاسی لوگوں سے سیاسی معاملات پر مذاکرات کیسے اور کیوں کریں۔

 مولانا فضل الرحمان کی مذہبی اور سیاسی حیثیت نہایت اہم اور مضبوط ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان کے بغیر پی ڈی ایم کے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کتنی اہمیت ہے اور اگر پی ڈی ایم، پی ٹی آئی کا کوئی ایک مطالبہ بھی تسلیم کرتی ہے تو اس کے پی ڈی ایم پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کے صدر بھی ہیں۔ یہ تو پی ڈی ایم والوں کو سوچنا چاہئے۔ علاوہ ازیں عوام میں کیا تصور جا سکتا ہے اور پی ڈی ایم میں مذاکرات کی حامی جماعتوں کو کل عوام میں کن نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عمران خان نے اب تک جتنے بھی سیاسی فیصلے کئے یا ان سے کرائے گئے ان سب کے نتائج ان کے حق میں بالکل نہیں نکلے، بلکہ ان فیصلوں سے انکو نقصان ہی ہوا۔ جن میں سے بعض کا خود انہوں نے اعتراف بھی کیا ۔ اب اگر وہ کسی بھی وقت سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو یہ ان کا شاید آخری غلط فیصلہ ہوگا۔ ملک میں فساد اور سیاسی انتشار پھیلانے والوں کو اب اجازت ملنا ممکن نہیں ، نہ ہی اس بارے میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت برتنے کا امکان ہے۔یہ توسب جانتے ہیں کہ عمران خان کو کئی سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔ جن سے جان چھڑانے کیلئے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ایسی ہر دھمکی اور ہر منفی کوشش کا نتیجہ مزید نقصان کا باعث بنے گا۔ کیونکہ ریاست مقدم ہے سیاست نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔