خیبرپختونخوا کھپے، پاکستان کھپے

فوٹو: سوشل میڈیا/فائل
فوٹو: سوشل میڈیا/فائل

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری پر جس منظم انداز سے فوج اور سرکاری اداروں پر حملے کیے جارہے ہیں، اس سے ملکی سلامتی پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔

بنگلادیش بننے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی سابق حکمران جماعت کے سرکردہ رہنما اپنے پارٹی کارکنوں کو فوج پر حملوں کے لیے نہ صرف اُکسا رہے ہیں بلکہ ان حملوں میں برابر کے شریک بھی ہیں۔

لاہور میں کور کمانڈر ہاوس کو نذرآتش کرکے بے دریغ لوٹ مار اوراس پورے عمل کی ڈھٹائی سے سوشل میڈیا پرتشہیر کرنے والے کچھ بھی توجیحات پیش کریں، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ملکی سلامتی کیلئے سرخ لکیر کیا ہوتی ہے؟

افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں یہ ہنگامہ آرائی کئی لحاظ سے خطرے کی گھنٹی ہے۔ شاید اسی لیے ضروری ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر یہ سوچا جائے کہ اس فساد کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟

اس میں شک نہیں کہ کراچی اور حیدر آباد ہی نہیں سندھ کے کسی بھی شہر میں تحریک انصاف کے کارکن بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلے۔ کراچی میں صرف چند مقامات پر احتجاج ہوا اور وہ بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نے ہنگامہ آرائی یا خون خرابے میں تبدیل ہونے نہیں دیا۔

یہ وہی کراچی ہے جسے پی ٹی آئی کا ابھرتا ہوا گڑھ مانا جاتا رہا تھا تاہم پچھلے چند برسوں میں جس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت نے شہر کوبدلا ہے، سڑکیں بنائی ہیں، پارک پھر سے بارونق کیے ہیں، شاہراہوں کو خوبصورت لائٹوں اور گلدانوں سے سجایا ہے،سستی اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کی ہے، لوگ ایک بدلا ہوا شہر دیکھ رہے ہیں۔

ویسے بھی سندھ میں پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی، وزارت عظمی کے دور میں بھی عمران خان کراچی کو چھو کر گزر جاتے تھے، انہوں نے کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ پیش کرکے مکمل نہیں کیا جو لوگوں کے لیے یادگارہو۔ اس کے برعکس پہلے سے پیش منصوبے ضرور التوا کا شکار کیے۔ شاید اسی لیے پی ٹی آئی یہاں ہنگامہ آرائی کی فضا نہیں بنا سکی۔

بلوچستان میں بھی صورتحال سندھ سے مختلف نہیں۔ عمران خان کی گرفتاری پر اس صوبے میں بھی قابل زکر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا ہنگامہ آرائی کا مرکز ہیں۔

جانی، مالی اور علامتی لحاظ سے دیکھیں توپنجاب میں سب سے زیادہ فساد برپا کیا جارہا ہے۔ یہاں فضا اس لیے بھی سازگارہے کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ یہ وہی صوبہ ہے جو کبھی پیپلزپارٹی کا گڑھ تھا، پھر یہاں مسلم لیگ کیلیے جگہ بنائی گئی اورپچھلے ایک عشرے میں پی ٹی آئی کو تحفہ میں دیدیا گیا تھا۔

اس سب کے باوجود ان مظاہروں سے پنجاب کو بڑا خطرہ اس لیے نہیں کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں یہاں سیاست پھر کروٹ لے رہی ہے، جغرافیائی اور کئی دیگر تناظر میں بھی صوبہ کو وہ چیلنجز درپیش نہیں، جنہیں الارمنگ تصور کیا جائے۔

تاہم اس میں شک نہیں کہ مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھا کر دشمن کہیں ضرب لگا سکتا ہے تو وہ خیبرپختونخوا ہے۔یہ صوبہ اے این پی سے چھین کر پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالا گیا تھا اور پچھلے چند عشروں میں یہاں کا کلچر ایسے بدلا گیا کہ لبرل تصور کی جانیوالی عوامی نیشنل پارٹی کے پیروں سے زمین کھینچ لی گئی۔

انہی عشروں میں خیبرپختونخوا میں دہشتگردی بھی بڑھی۔ صرف اس سال اب تک ایک سو دو پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں جن میں سے زیادہ ترپشاور کی مسجد میں بم دھماکے سے شہید کیے گئے، سن دوہزار اکیس میں یہ تعداد چوون اور سن دوہزار بیس میں اکیس تھی۔

دہشتگردی کے ان میں سے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی رہی ہے۔وہی کالعدم ٹی ٹی پی جیسے عمران دور میں خیبرپختونخوا میں آباد کرنے کی کوشش کی گئی۔افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑے یہ جنگجو پاکستان میں بھی وہی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جیسا افغانستان میں ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کا مؤقف ہے کہ اسکا پہلا ہدف پاکستانی فوج ہے مگر پولیس کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ڈھال بنتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فوج اور پولیس دونوں پرحملوں کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی نے ٹی ٹی پی کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کے نام پر عمران خان نے جس طرح نہ صرف لوئر بلکہ مڈل اور اپر کلاس کو سہانا سپنا دکھایا تھا، اسکے نتیجے میں لوٹ مارکرنیوالوں میں پی ٹی آئی کی خواتین بھی مردوں سے پیچھے نہیں۔

ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی کا یہ فطری اتحاد کسی اور صوبے میں رنگ لائے نہ لائے،خیبرپختونخوا کی حد تک زہر قاتل ضرورہوسکتا ہے۔شاید اسی لیے آج اس بات کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما کھل کر خیبرپختونخوا کھپے، پاکستان کپھے کا نعرہ لگائیں۔

پی ٹی آئی کےسوا پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں سابق صدر آصف زرداری کی دوراندیشی کی اسی لیے قائل ہیں کہ بے نظیر جیسی عالمی شہرت کی حامل لیڈر کی موت پر انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایاتھا ورنہ سانحہ اکتوبر ہویا دسمبر، بے نظیر بھٹو پرحملوں نے سندھ کے شہریوں میں جو اشتعال پیدا کیاتھا، اسے کوئی بھی سمت دی جاسکتی تھی اور دشمن اسے کسی بھی مزموم مقصد کیلیے استعمال کرسکتا تھا۔

سن 2004 میں آصف زرداری کو جب جنرل پرویز مشرف کےدور میں رہائی دی گئی تو میں نے بےنظیربھٹواور انکے تینوں بچوں،بلاول، بختاور اور آصفہ کا انٹرویو کیا تھا۔ آصفہ بھٹو کی عمراس وقت گیارہ برس کے قریب تھی۔ آصفہ بھٹو نے کہا تھا کہ وہ رمضان کے روزوں میں دعائیں مانگتی تھیں کہ خدا جج کو ہدایت دے کہ وہ مان لیں کہ آصف زرداری بے گناہ ہیں۔

سارے سیاستدانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والے عمران خان کو گرفتار کرنے سے ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی کہ پی ٹی آئی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہے۔پی ٹی آئی آصفہ بھٹو سے سبق سیکھے اورعمران خان کی بے گناہی ثابت ہونےکی دعامانگے یا آصف زرداری سے سبق سیکھے اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔