Time 26 مئی ، 2023
پاکستان

پاک روس براہ راست بحری تجارت کا آغاز

روس کی نجی کمپنی کا مال بردار جہاز ایم وی کرسٹل سینٹ پیٹرزبرگ چین سے کارگو لیتا ہوا جمعرات کو کراچی کی بندرگاہ پہنچا— فوٹو: سوشل میڈیا
روس کی نجی کمپنی کا مال بردار جہاز ایم وی' کرسٹل سینٹ پیٹرزبرگ' چین سے کارگو لیتا ہوا جمعرات کو کراچی کی بندرگاہ پہنچا— فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی اور سینٹ پیٹرز برگ کو جہاز رانی کے ذریعے جوڑ کر پاک روس تجارتی تعاون کے ضمن میں سنگ میل عبور کرلیا گیا ہے۔

روس کی نجی کمپنی کا مال بردار جہاز ایم وی' کرسٹل سینٹ پیٹرزبرگ' چین سے کارگو لیتا ہوا جمعرات کو کراچی کی بندرگاہ پہنچا۔ اس موقع پر مقامی ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی وزراء، ایران، انڈونیشیا، عمان و دیگر ممالک کے سفارتکار اور نامور کاروباری شخصیات شریک ہوئیں۔

اس گیم چینجر اقدام کے نتیجے میں دونوں ملکوں سے اشیاء کی اب براہ راست درآمد اور برآمد ممکن ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی تاجروں کیلئے بی ٹو جی اور بی ٹو بی بزنس بڑھانے کے زیادہ مواقع میسر آسکیں گے۔

روس میں پاکستان کے سابق سفیر قاضی خلیل اللہ نے روس کی نیکو لائن کے جہاز کی آمد کو یادگار لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحری تجارت کا آغاز دونوں ملکوں کے تعلقات میں تاریخ ساز نوعیت کا حامل ہے۔

موقع پر مقامی ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی وزراء، ایران، انڈونیشیا، عمان و دیگر ممالک کے سفارتکار اور نامور کاروباری شخصیات شریک ہوئیں
 موقع پر مقامی ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی وزراء، ایران، انڈونیشیا، عمان و دیگر ممالک کے سفارتکار اور نامور کاروباری شخصیات شریک ہوئیں

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی مصدق ملک نے کہا کہ جو لوگ اس بات کے دعویدار تھے کہ شہباز حکومت روس سے تجارت میں دلچسپی نہیں رکھتی وہ چند روز میں دیکھیں گے کہ روس سے پیٹرولیم مصنوعات بھی پاکستان لائی جائیں گی۔ یہی نہیں حکومت کا تمسخر اڑانے والے ذرا تحمل کریں، ریفائنری سیکٹر میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی جلد ہوگی۔

وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ آزاد تجارت کا جامع معاہدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ٹیرف کم ہوسکے، سرمایہ کاری اور دوطرفہ تجارت 20 ارب ڈالرسالانہ تک بڑھائی جاسکے۔

پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی، دفاعی اور معاشی تعلقات پچھلےایک عشرے میں نسبتا زیادہ تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔ روس نے حال ہی میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر گندم فراہم کی ہے۔ صرف پچھلے سال درآمد کی گئی گندم کی مقدار دس لاکھ ٹن سے زائد تھی۔

پاکستان سے روس برآمد کی جانیوالی اشیاء میں چاول، پھل، سبزیاں،کنفیکشنری، اسپورٹس کا سامان، چمڑے سے تیار کی جانیوالی مصنوعات،ٹیکسٹائل ، سرجیکل آلات اور ادویات شامل ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم سن 2020 میں 790 ملین ڈالر تھا جو سن 2021 میں بڑھ کر 821 ملین ڈالر ہوگیا تھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ حالیہ اقدام سے اس میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

براہ راست تجارت سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل کے لیے بھارت، امارات،  ملائشیا، اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے بحری راستے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان ممالک سے سامان کی نقل وحمل میں 60 روز لگتے تھے جو اب کم ہوکر 19 دن رہ گئے ہیں۔

اس طرح پاکستانی تاجروں کو روس کی مارکیٹ تک براہ راست رسائی ملنے سے اشیاء کی نقل وحمل پر آنیوالے اخراجات میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ تاجروں کو بہتر قیمت پر اپنی چیزیں فروخت کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

براہ راست تجارت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون بھی نئے افق کو چھوسکے گا کیونکہ اب دفاعی سامان کی نقل وحمل بھی آسان ہوجائے گی۔ کسی تیسرے ملک کے راستے دفاعی نوعیت کا سامان لانے سے خدشہ ہوتا ہے کہ وہ ملک بھی اس سامان کی نوعیت سے واقف ہوجائےگا۔

دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کا یہ قدم پاک روس تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پراٹھایا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات یکم مئی 1948 کو قائم ہوئے تھے۔کئی بڑے اتارچڑھاؤ آئے مگر یہ تعلقات نہ صرف قائم رہے بلکہ اب ایک بار پھر ان میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں پاک شاہین گروپ کے سی ای او عبداللہ فرخ نے کہا کہ فی الحال صرف پاکستانی اشیاء برآمد کی جائیں گی تاکہ ملکی معیشت مستحکم کی جائے تاہم روس اورپاکستانی کمپنی کے اشتراک سے کی جانیوالی یہ کاوش آگے چل کر پاکستان کو سامان کی ترسیل کے علاقائی مرکز میں بدل دے گی۔ اس طرح کراچی مستقبل میں دبئی کی طرح تجارت کی بڑی منڈی بن کر ابھرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی آنیوالا روس کا جہاز ایم وی 'کرسٹل' چین سے سامان لایا ہے۔ اتوار کو روس سے ایک اور جہازبھی کراچی آئے گا جو یہ سامان لے کر روس روانہ ہوگا۔

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں روس کے قونصل جنرل آندرے وکتوروچ فیدروف نے کہا کہ وہ اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ ' پاکستانی عوام روس میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں اور صدر ولادیمر پیوٹن کا کس قدر احترام کرتے ہیں۔ عالمی ایجنڈے میں کئی ایشوز پر دونوں ملکوں کی سوچ میں قربت ہے اور یہی ایک دوسرے کو قریب لانے کا ذریعہ بنی ہے۔'

قونصل جنرل نے کہا کہ روس چاہتا ہے کہ پاکستان سے مل کر منصفانہ جمہوری ملٹی پولر ورلڈ آڈر ترتیب دے۔ کسی ملک کا نام لیے بغیر روسی سفارتکار نے چوٹ کی کہ ماسکو' لوگوں کے ثقافتی اور تہذیبی تنوع کا احترام کرتاہے اور اس حق کا بھی کہ لوگوں کو اپنے سیاسی، ، سماجی اور اقتصادی ترقی کے رستوں کا خود چناؤ کرنے کا حق ہونا چاہیے۔'

قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں یقین، اتحاد اور نظم کا حوالہ دیتے ہوئے قونصل جنرل نے کہا کہ ورلڈ آڈر سے متعلق روس کا وژن بھی بانی پاکستان کے انہی فرمودات سے ہم آہنگ ہے۔

قونصل جنرل نے کہا کہ سکیورٹی خطرات، جرائم اور دہشتگردی سے نمٹنے کے معاملے پر روس کے نزدیک اسلامی جمہوریہ پاکستان کلیدی عالمی شراکت دار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عالمی سیاست میں آئے شدید بحران کے تناظر میں روس نے خارجہ پالیسی کا نیا نظریہ اپنایا ہے۔ 'مغرب کے غیرمنصفانہ تسلط کو ختم کرنے کے لیے روس دوست اقوام کے درمیان علاقائی ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر معاونت کررہا ہے۔'

پاکستان سے متعلق روس کی نئی خارجہ پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے قونصل جنرل نے کہا کہ ماسکو چاہتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ تعاون کو وسعت دی جائے۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو مزید رقم ملنے میں دشواری کا سامنا ہے، پاکستان کا روس سے تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا معاشی ماہرین کے نزدیک معنی خیز عمل ہے۔

مزید خبریں :