07 جولائی ، 2023
اسلام آباد: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 9 مئی کو گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ 22صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ غیر قانونی قرار دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا، بائیو میٹرک کے وقت رینجرز نے ڈائری برانچ میں زبردستی گھس کر چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا، رینجرز نے ہائیکورٹ کے احاطے میں شیشے توڑے، وکلا اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 9 مئی کی گرفتاری کے واقعے کا نوٹس لیا، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری کے طریقے کو غلط لیکن گرفتاری کو قانونی قرار دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالتی حکم پر ساڑھے چار بجے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے 9 مئی کے واقعات پر بیان کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر آنے کی اجازت دی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری کے بعد کے واقعات سے لا علمی کا اظہار کیا، عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی اور کہا کبھی اپنے چاہنے والوں کو تشدد پر نہیں اکسایا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری پر مایوسی کا اظہار کیا، نیب پراسیکیوٹر اور اٹارنی جنرل کو سننے کے فوری بعد مختصر حکم جاری کیا گیا، مختصر حکم میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پولیس گیسٹ ہاؤس میں نامزد لوگوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی، احاطہ عدالت سے گرفتار کر کے انصاف کے حصول کے بنیادی حق کو پامال کیا گیا، طے شدہ اصول ہے کہ عدالتی وقار اور تقدس کی پاسداری سب پر لازم ہے، لوگ اس یقین دہانی پر عدالتوں آتے ہیں کہ آزادانہ ماحول اور شفاف انصاف ملے گا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ میں پیش ہو کر بائیو میٹرک تک چئیرمین پی ٹی آئی نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا، جس طریقے سے گرفتاری ہوئی ہائیکورٹ کی اتھارٹی اور تقدس کو پامال کیا گیا، اس سے قبل احاطہ عدالت سے گرفتاری پر سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کر چکی ہے، عدالت کی صوابدید ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی کرے یا اس سے احتراز برتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے اپنے تقدس کو شہری کے انصاف کے حصول کے بنیادی حق پر ترجیح دی، ہائیکورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے، گرفتاری قانونی قرار دی جاتی تو القادر ٹرسٹ میں دائر ضمانت کی درخواست غیر موثر ہو جاتی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتاری قانونی قرار دی جاتی توآئندہ احاطہ عدالت سے گرفتاری معمول بن جاتی، عدالت گرفتاری کی توثیق کرتی تو پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے احاطہ عدالت کو ملزمان کے شکار کا گڑھ بنا لیتے، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملزمان کے ساتھ احاطہ عدالت میں بدتمیزی کی اجازت مل جاتی، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 4، 9 اور 10 اے کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے گرفتاری غیر قانونی قرار دی۔