آلودہ انتخابات سے نکلی تخریبِ مسلسل

پاکستانیو! بالخصوص ذمے دارانِ ریاست جتنا سمجھ سکتے ہو سمجھ لو جس قدر سمجھوگے اتنا ہی بہتر، کسی ایک علاقے، طبقے، ادارے، جماعت، لیڈر یا خاندان کی خاطر نہیں بلکہ مملکت پاکستان، بلاامتیاز اس کے ہر فرد، گھرانے اور گروپ آف پیپلز کے وسیع تر مفادات کیلئے! 

لیکن سمجھنا تو فقط آغاز ہے، سمجھ کر وہ کرنا جو مطلوب ہے، شرطِ اول ہے، یہ کہ:گمراہی پر چلتے گڑھے میں اوندھے گرے بدحال وطن کو نکال کر مکمل آئین و قانون کے حوالے ،سہارے ’’روڈ تو پیپلز پاور‘‘ پر تابناک پاکستان کی جانب پوری قوم کابلارکاوٹ مارچ (جی ہاں اب بھی) کرانا ممکن ہے۔ روایتی سیاسی لانگ مارچ نہیں جیسے ’’مہنگائی مکاؤ‘‘ کے نام پر حکومت اُکھاڑ مارچ ،نہ ہی انتخابی شکست کھاتے ہی اپنے سیاسی وجود کو جتانے اور دکھانے کا مارچ کہ ابھی جاں باقی ہے، بلکہ ’’آئینی پاکستان‘‘ بنانے والا مارچ، وہ جو کبھی 75 سال کے کسی بھی دور میں تخلیق ہی نہ ہوا۔ حتیٰ کہ متفقہ آئین سازی اور اس کے ’’اطلاق‘‘ کے بعد بھی ملک آئینی نہ بنا، نہ تادم آنے والی حکومتوں نے قانون کو منہ لگایا۔

اپنے ہی کھلواڑو جگاڑ اور دھونس دھاندلی سے اپنے ہی مطلب و مفاد کیلئے مکمل من مرضی سے حکومتیں چلائی گئیں جو خود چلیں نہ ملک کو آگے بڑھنے دیا ، تاہم حاصل اقتدار سے اتنا داؤ لگتا رہا کہ اپنے ادارے اور خاندان کو مقتدر بنانے، حکمرانوں کو اپنے ہی ڈھب پر چلانے اورپبلک سروس کے منافع بخش ادارے اپنے نکمے درباریوں کے سپرد کرکے تباہ کرنے کے کام آیا۔ اداروں اور محکموں کی بے رحمی سے لوٹ مار اور نااہلی کی جکڑ سے یہ عوام کیلئے تخریب، محرومی اور حکمرانوں کیلئے طاقت بن گئی۔

 آئین و قانون سے متصادم یہ پریکٹس، دھما چوکڑی اور یہ بیڈ گورننس میں تبدیل ہوتی بدترحکمرانی اسٹیٹس کو کے نظام بد کی شکل اختیار کر گئی جو طاقت پکڑتا ملک کے وسائل، میرٹ اور آئین و قانون کو لوٹتا اور روندتا آج کے انتہاکے بگڑے پاکستان میں دنیا بھر کیلئےتماشا اور پوری سلگتی سسکتی قوم کیلئےخوف و مایوسی کا سمندر بن گیا۔ یہاں کوئی تگڑا ہے تو آلودہ انتخابات سے بنی خاندانی حکومتوں کے کرپٹ حکمران ان کی آل اولاد یا ان کے بھی سرپرست اور حوالی موالی اور بڑے بڑے ٹیکس چور اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والے ہر دم آئین سے لڑتے بھڑتے اہل اقتدار۔ جتنے یہ دولتمند اور مقتدر، عوام اتنے ہی غریب اور محروم۔

اب یہ کھلا راز ہی نہیں برہنہ سچ ہے کہ 76 سالہ پاکستانی تاریخ کا مسلسل عدم استحکام مکمل بدنیتی پر مبنی، آلودہ انتخابات کے انعقاد شفاف اور آزاد الیکشن کو سازشوں اور سیاسی حربوں سے روکنے کی کامیاب تگ و دو سے پیوستہ ہے۔ تبھی تو آج امید ِبہار مر ہی گئی، جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ جو کچھ ٹوٹے پھوٹے اور نحیف، رکاوٹوں سے اٹے ارتقائی عمل میں سیاسی عمل اور حکومتوں میں قدرے استحکام آیا تھا، وہ پی ڈی ایم کے جاری عوام کیلئے عذاب بنے دور میں مکمل ریورس ہوگیا۔ 

صرف دال روٹی ہی محال نہیں، آئین و قانون کی جس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اگرچہ آئین و قانون کے مطابق حکمران ہمیشہ ہی آزاد و شفاف و غیر جانبداری سے ڈرتے رہے۔ جیسے 1956ءکے آئین کے مطابق فروری 1957میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا تو جنرل ایوب خان میں اقتدار سنبھالنےکی طمع ہوس میں تبدیل ہو گئی۔ سازشی عمل تیز تر ہوگیا۔ آئین ٹھکانے اور مارشل لا لگا دیا گیا۔ پھر دس سالہ دور میں بھی اپنے ہی آئین کےمطابق الیکشن سے بھی ڈر لگا۔ بھٹو صاحب کی نگرانی میں کنونشن مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جو جو بکواس کی گئی، وہ پولنگ ڈے پر دھاندلیوں میں تبدیل ہو گئی، جس کیخلاف احتجاجی ردِعمل کو فسطائیت سے کچلا گیا۔ 

جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات تو انتہائی پرجوش اور جذباتی ملک گیر انتخابی مہم کے (شاید) دباؤ میں الیکشن تو فری اور فیئر کرا دیئے لیکن نتائج آنے پر اکثریتی جماعت کو حکومت میں آنے سے روک کر آگ کا کھیل کھیلا گیا۔ حالانکہ اقتدار معمول کے مطابق یکدم ملنا بھی نہیں تھا۔ نئی نسل کی consumptionکیلئے ریکارڈ کیا جا رہا ہے کہ الیکشن 70ء میں بننے والی اسمبلی کے دو کردار طے شدہ تھے، پہلے آئین سازی اس کے بعد تشکیل حکومت جو اسی آئین کی روشنی میں ہونی تھی لیکن اسمبلی کے اجلاس کا اعلان ہوتے ہی اس کے انعقاد کی شدید مخالفت بھٹو صاحب کی طرف سے ہوئی جو جلد ہی یحییٰ، بھٹو گٹھ جوڑ میں تبدیل ہو کر ملک کو مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے تباہ کن ملٹری آپریشن کی طرف لے گئی۔ مشرقی پاکستان میں جعلی انتخاب کرکے جو جعلی حکومت بنائی گئی، وہ بنگالیوں کے احتجاجی ریلے میں بہہ گئی۔ ملک ٹوٹ گیا، نئے پاکستان میں نیا آئین بنا، لیکن پہلے ہی انتخابات میں پھر بھٹو صاحب اپنے مقابل کافی چھوٹی لیکن منتشر اور سرگرم اپوزیشن کے غیر متوقع اتحاد سے اتنا ڈرے کہ ملک گیر دھاندلیوں کا منصوبہ بنا۔ آئین ٹھکانے لگا۔ 

اتنی دھاندلی ہوئی کہ قومی اسمبلی کے الیکشن کے 3روز بعد جب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو ملک بھر میں اپوزیشن قومی اتحاد کی اپیل پر اس قدر موثر بائیکاٹ ہوا کہ پولنگ ڈےپر ویرانی رہی۔ لیکن پنجاب اور سندھ کے شہروں میں پھر بھی ویران پولنگ سٹیشنوں سے منتخب نمائندگی برآمد کر کے عین مرضی منشا کے مطابق حکومتیں قائم کر دیں۔ احتجاجی تحریک میں بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر ردعمل اور اسے مکمل فسطائیت سے کچلنے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 342احتجاجی سیاسی کارکن اور عام شہری شہدائے جمہوریت بنے۔

 لیفٹ رائٹ کی صحافی تنظیمیں بلا امتیاز سراپا احتجاج بن گئیں۔ یہ تھا وہ ایمی جیٹ بیک گرائونڈ ضیاء الحق مارشل لا کا جس کا ماتم مخالف سیاسی جماعتیں کیا ضیاء الحق کی بنائی جماعت بھی اب ہر سال مناتی ہے۔ لیکن اس کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ عمران حکومت اکھاڑنے کی تباہ کن مہم جوئی کے بعد اب خوفزدہ ہو کر اتحادیوں کو آئوٹ آف دی وے نواز کر الیکشن کو روکنے اور بیل منڈھے نہ چڑھنے پر مرضی کے انتخابات کرانے کیلئے کراچی کے بلدیاتی انتخاب سے لے کر آزاد کشمیر اور بلتستان میں جو مہمات اور خلاف آئین عمل سے ’’فتوحات‘‘ کے خبط میں ہے، وہ اتنی بڑی تخریب ہے کہ اس کے خسارے کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ 

پاکستانی مین لینڈ انتظامیہ جو سلوک دونوں حساس علاقوں میں عوامی سیاسی حقوق کے خلاف ڈاکہ ڈال کر کررہی ہے اس میں بھاری کرپشن کے ریکارڈ بھی پیچھے رہ گئے کہ ہر دو علاقے اتنے حساس ہیں جتنی پی ڈی ایم اپنے اقتدار کی ہوس میں اندھی۔ خدا کا خوف کریں اور پاکستان کو اتنی بڑی تخریب سے بچائیں....وگرنہ جو ہوگا کہنے کا یارا نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔