ہاتھوں اور پیروں کی جِلد میں بننے والے ایسے نشانات سے نجات دلانے والے طریقے

ایسا اکثر افراد کے ساتھ ہوتا ہے / فائل فوٹو
ایسا اکثر افراد کے ساتھ ہوتا ہے / فائل فوٹو

اکثر ہاتھوں اور پیروں میں مخصوص حصوں پر کھال سخت ہو جاتی ہے اور وہاں سے پھولی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔

یہ بنیادی طور پر مردہ جِلد کی متعدد تہیں ہوتی ہیں جو خود کو رگڑ یا دباؤ سے بچانے کی کوشش میں اس طرح کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

اگر آپ صحت مند ہیں تو اس مسئلے (طبی زبان میں اسے corns and calluses) سے پریشان ہونے یا علاج کرانے کی ضرورت نہیں۔

البتہ تکلیف محسوس ہو یا وہ بدنما لگ رہے ہوں، تو گھر میں رہتے ہوئے بھی آسانی سے ان سے نجات ممکن ہے۔

خانے دار پتھر

خانے دار پتھر یا عوامی زبان میں جھانواں پتھر سے اس مسئلے سے نجات ممکن ہے۔

اس مقصد کے لیے پیر یا ہاتھ کو گرم پانی میں 10 منٹ تک ڈبو کر رکھیں اور پھر پتھر کو متاثرہ حصے پر رگڑیں۔

سیب کا سرکہ

سیب کا سرکہ بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

سرکے میں روئی کے ٹکڑے کو ڈبوئیں اور پھر اسے چند منٹ کے لیے متاثرہ حصے پر رگڑیں یا وہاں دبا کر رکھیں۔

البتہ بہت زیادہ مقدار میں سرکے کو استعمال کرنے سے گریز کریں جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کو بھی اس طریقہ کار کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

لیموں

لیموں میں موجود تیزابیت بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

سونے سے قبل لیموں کے چھلکے کے ایک انچ بڑے ٹکڑے کو متاثرہ حصے پر رکھ کر اوپر پٹی باندھ دیں اور جراب پہن لیں۔

ہر رات ایسا کرنے سے وہ نشان غائب ہو جائیں گے۔

اسپرین

سیب کے سرکے اور پانی کی یکساں مقدار مکس کریں، پھر 5 یا 6 اسپرین کی گولیوں کو پیس کر اس سیال میں ڈال دیں۔

اس پیسٹ کو متاثرہ حصے پر رگڑیں اور پھر اس پر پٹی لگا کر 10 منٹ کے لیے چھوڑ دیں۔

ایسا کرنے سے کھال کا وہ حصہ اتنا ڈھیلا ہو جائے گا کہ نرمی سے خانے دار پتھر رگڑنے سے اسے نکالنا ممکن ہو جائے گا۔

بیکنگ سوڈا

اسپرین کی پیسٹ کی طرح بیکنگ سوڈا بھی اس مسئلے سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

بیکنگ سوڈا کو پانی میں ملا کر پیسٹ بنائیں اور اسے متاثرہ حصے پر رگڑیں۔

اپسم نمک

نمک کی یہ قسم بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

کچھ مقدار میں اپسم نمک کو گرم پانی سے بھری بالٹی میں مکس کریں اور پھر اس میں پیروں یا ہاتھوں کو 10 منٹ تک ڈبو کر رکھیں۔

جب مردہ جِلد نرم ہو جائے تو خانے دار پتھر سے اسے اتار لیں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :