قومی سلامتی خطرات میں

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سانحہ 16 دسمبر 1971ء میرے اوپر بیت چُکا ، وطنِ عزیز 1971ءجیسے حالات کی طرف دوبارہ گامزن ہے ۔ آج وطنِ عزیز جہاں موجود ، وجود بارے خدشات، صاحبِ بصیرت پر کپکپاہٹ طاری ہے ۔ ملکی سلامتی اور افواجِ پاکستان لازم و ملزوم ، عرفِ عام میں قومی سلامتی کا ضامن ادارہ ہے ۔ 

اسٹیبلشمنٹ کی تعمیر میںاک صورت خرابی کی ، سانحہ جب تک رونما نہ ہو جائے ، ’’سب اچھا‘‘ کی آوازگونجتی رہتی ہے۔ 2014 کا پروجیکٹ’’ سیاست نہیں ریاست بچاؤ ‘‘ یا 2016 سے نواز شریف کو قومی سلامتی کیلئےخطرہ گرداننا، اسٹیبلشمنٹ ہی کے تو کارنامے ہیں۔

 قومی سلامتی کے نام پر نواز شریف سے حکومت چھینی گئی۔ عمران خان کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کی وجہ بھی اِسی قومی سلامتی کی ترویج و زیبائش تھی۔ وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ عمران خان کا اقتدار قومی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا ۔ آج مملکت جس آگ میں ، پچھلے 18 مہینوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔ اسکی کُلی ذمہ داری عمران خان پر نہ شہباز شریف پر اورنہ ہی عمران کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت پر ڈالی جا سکتی ہے ۔ 

سارے ادوار میں مجرم جنرل باجوہ اور ان کےچند حواری جو مملکت کو گمبھیر سیاسی عدم استحکام کی عمیق دلدل میں دھکیل گئے ۔ آج اگر عسکری قیادت شدومد سے ملکی نظم و نسق اور انتظام ایک بار پھراپنے ہاتھ میں لے چُکی ہے،تو اسکی وجہ موجودہ آرمی چیف کا ذاتی مفاد یا اپنی طاقت کے جوہر دِکھانا نہیں تھا ۔ جنرل عاصم منیر کے گلے میں یہ گھنٹی عمران نے شب و روز کی محنتِ شاقہ سے باندھی ہے ۔

عمران خان کا دسمبر 2022میں عزمِ صمیم ہر ذی شعور کو دم بخود کرگیا،’’میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی بطور چیف تعیناتی رُکوانے کیلئے راولپنڈی لانگ مارچ کروں گا ‘‘۔جنرل باجوہ کو مجرمانہ پروجیکٹ کیلئے ایک ایسا احمق اورغبی چاہیے تھا جو عوام الناس میں بھی قدرو منزلت رکھتا ہو ۔ 

بد قسمتی سے عمران کے کوائف باجوہ کی مجرمانہ سوچ کے عین مطابق تھے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سیاستدان ممکنہ آرمی چیف کا نوٹیفکیشن رُکوانے کیلئے لانگ مارچ کر رہا تھایا ڈاکٹر علوی کیساتھ ملکر نوٹیفکیشن سے کھیلنا تھا ۔ 29 نومبر کے بعد عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو دیوار کیساتھ لگانےکیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، 9 مئی کا واقعہ ملکی سالمیت کی چولیں ہلا گیا۔

اس بحث میں جائے بغیر کہ تحریک انصاف خود کتنی ملوث تھی اور کس قدر’’ بھائی لوگوں‘‘کے زیرِ استعمال رہی۔ عمران خان کی مخبوط الحواس سیاست کہ بقول ’’جمہوری حکومت گرانیوالا ، سازش کرنیوالا ، غداری کرنیوالا ، تمام بیماریوں کا سبب جنرل باجوہ پھر اُسی کے کہنے پر جلسے ، جلوس ، دونوں لانگ مارچ ، اسمبلیوں کی تحلیل ، جیل بھرو تحریک ، سب کچھ اُسی کی ایما پر، پھر اُسی سے دوا بھی کی، صدر ہاؤس میں ملاقاتیں ، مدتِ ملازمت میں غیر معینہ توسیع، ایسی دو عملی کا متحمل عمران خان ہی ہو سکتا ہے۔

9 مئی کو فوجی تنصیبات اور علامات پر جتھوں کی چڑھائی کا ذمہ دار عمران خان ہی کہ سارا سال ایسے بیانیہ کو پروان چڑھایا۔عمران خان صاحب کا کہنا کہ ’’گرفتاری پر ردعمل آنا تھا ، جب مجھے گرفتار فوج نے کیا تو ردِ عمل بھی فوج ہی کیخلاف آنا تھا‘‘۔ عمران خان وطنی سیاسی تاریخ سے لاعلم ، دو مثالیں ، ذوالفقار علی بھٹو( 1977) اور نواز شریف (1999)کی کنپٹی پر فوجی جرنیلوں نے بنفس نفیس پستول رکھ کر انتہائی تضحیک آمیز طریقہ سے گرفتار کیا ۔ گرفتاری سے چند دن پہلے تک بھٹو صاحب تاریخی جلسے جلوس کر رہے تھے جبکہ نواز شریف دو تہائی اکثریت کیساتھ وزیراعظم تھے ۔ کیا پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کا کوئی جتھہ یا کارکن چھائونیوں اور GHQ کی طرف گیا؟سوچا بھی نہیں گیا۔ بھٹو صاحب کیلئے جلسے جلوس خود سوزی ہوئی ، کلثوم نواز صاحبہ نے بے شُمار جلسے ریلیاں کیں ۔ سب شہروں کی مشہور شاہراہوں اور معروف جگہوں تک محدود تھے۔

عمران خان نے جنرل عاصم منیر کیلئے چوائس چھوڑی کیا ہے؟ جب عمران خان کا بیانیہ ہی کہ’’میں نہیں یا فوج نہیں‘‘تو کیسے توقع رکھیںکہ سانحہ 9 مئی کے بعد جنرل عاصم منیر اپنے آ پ کو اور فوج کو بچانے کیلئے ہر حد نہیں ٹاپیں گے ۔ لمحہ فکریہ اتنا کہ اس دھینگا مشتی میں مملکت ہلکان ہونے کو ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی لاینحل مشکلات، راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رائے عامہ ، جسکو نظر انداز کرنا عاقبت نااندیشی ہو گی۔ ماضی میں اسکا خمیازہ بھگت چُکے ہیں ۔ پچھلے 18 ماہ عمران خان سے نبٹنے کے جتنے طریقے بروئےکار لائے گئے عمران خان کو اُسکا فائدہ پہنچا ۔ خاطر جمع رکھیں ، کورٹ مارشل کے مطلوبہ نتائج نہیں ملنے ۔ ملٹری ٹرائل نے حالات کو مزید سنجیدہ رنجیدہ کرنا ہے، فوج بدنام ہوگی ۔ جبکہ ملٹری ٹرائل کیخلاف وکلا ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور عوامی ردِ عمل سخت رہنا ہے۔ 

عمران خان کا وکلاکے اند راثرو رسوخ خاطر خواہ ، ایک دفعہ وکلا سڑکوں پر نکلے تو بجلی بلوں پر پہلے سے موجود ہنگامے ایک بڑی حمایت کی صورت میں ملکی سیاست کو تڑکہ لگائیں گے ۔ ملٹری کورٹس میں کیسز چلانےکیلئے جھوٹ کے انبوہ لگانا ہونگے ۔ اپنے بیٹے حسان خان کے کیس میں جھوٹوں کے جم غفیر کومیں بھگت رہا ہوں ۔ کاش ملٹری کورٹس سے اجتناب رہے اور سپریم کورٹ کو اس سے آگاہ کر دیا جائے ۔ 

کئی مہینوں سے آہ و بکا کہ عمران خان کو نواز شریف طرز پر 10/15 سال کیلئے جلا وطن ہونے پر راضی کر یں۔ مشکل ضرور، ناممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف صاحب کو منوا کر جیل سے علاج کیلئے لندن بھیجا گیا تھا ۔ عمران خان کے قریبی ساتھیوں اور گھر میں ایجنسیوں کے کئی موثر اثاثے موجود ہیں ۔ اُن کے ذریعے عمران خان کو منوایا جا سکتا ہے ۔ اگرا للہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی حکم آیا تو’’ عمران خان مان بھی جائیگا‘‘۔ سانپ مارنے کے چکر میں لاٹھی ٹوٹی تو ملک کا نقصان ہو گا ۔ عمران خان کیلئے ایسا فارمولا نعمتِ غیر مترقبہ کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔چشم تصور میں 10اپریل 1986کو اگر ذوالفقار علی بھٹو بقلم خود لاہور تشریف لاتے تو ...، 24 نومبر 2007کو نواز شریف ( تضحیک آمیز جلا وطنی کے معاہدوں کے بعد ) جب لاہور تشریف لائے تو دسمبر 2021تک، پاکستان کی سیاست کے بلا شرکت غیرے مالک رہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ ملک تباہی کے گڑھے میں گرنے کو ہے۔ 16دسمبر 1971ءکا سبق کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بدقسمت دن سے ایک دن پہلے بھی سانحہ کاادراک نہیں تھا۔ اگر کوئی شک ہے تو جنرل نیازی کا 13 دسمبر کو BBC کو انٹرویو یا کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کی 16 دسمبر کی تقریر انہماک سے سُن لیں۔ اس سے پہلے کہ چڑیاں سب کچھ چُگ جائیں ، کھلیان کی فکر آج ہی کرنا ہو گی وگرنہ کچھ نہیں بچے گا۔

مزید خبریں :