06 اپریل ، 2025
ہمارا دماغ جسم کے کنٹرول سینٹر کی حیثیت رکھتا ہے جو دل کی دھڑکن جاری رکھتا ہے، پھیپھڑوں کو سانس لینے اور ہمیں چلنے، پھرنے، سوچنے اور محسوس کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مگر عمر کے ساتھ ہر فرد کے دماغ میں تبدیلیاں آتی ہیں اور ذہنی افعال بھی تبدیل ہوتے ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے اور اس کا نتیجہ بڑھاپے میں الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔
مگر ہماری غذائی عادات بھی دماغی تنزلی کا سفر تیز کر سکتی ہیں۔
ایسی ہی غذاؤں کے بارے میں جانیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔
تلی ہوئی غذائیں جیسے فرنچ فرائیز اور دیگر سے جسمانی وزن میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
جرنل آف نیوٹریشنل سائنس میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ تلی ہوئی غذائیں کھانے والے افراد دماغی افعال کے ٹیسٹوں میں ناقص اسکور حاصل کرتے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ اس طرح کی غذا سے ورم بڑھتا ہے جبکہ دماغی ٹشوز سکڑ جاتے ہیں جس سے دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مارجرین اور ٹرانس فیٹ سے بھرپور دیگر غذاؤں سے نہ صرف دل اور خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ دماغی افعال کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔
جرنل نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درمیانی عمر کے وہ افراد جن کے خون میں ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ان میں ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سافٹ ڈرنکس اور فروٹ جوسز سمیت چینی سے بنا ہر مشروب دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق چینی کا زیادہ استعمال دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اس حوالے سے ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ میٹھے مشروبات پینے کے عادی افراد کی یادداشت کمزور ہوتی ہے جبکہ ان کے دماغ کا حجم بھی گھٹ جاتا ہے۔
ان مزیدار چیزوں کو تیل میں تلا جاتا ہے جبکہ ان میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان دونوں کا امتزاج دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
اس طرح کی تلی ہوئی میٹھی اشیا کے استعمال سے ورم بڑھتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں خون میں شکر کی مقدار میں اضافے کو ڈیمینشیا سے مسنلک کیا گیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ بدتر بات یہ ہے کہ اکثر ڈونٹس میں ٹرانس فیٹس موجود ہوتے ہیں جو دماغی صحت کے لیے ایک نقصان دہ جز ہے۔
سفید چاول، سفید ڈبل روٹی، سفید پاستا اور دیگر پراسیس غذاؤں سے بلڈ شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور بلڈ شوگر بڑھنے سے دماغی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ریفائن کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذاؤں کے استعمال سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مصنوعی مٹھاس پر مبنی مشروبات
شوگر فری یا ڈائٹ مشروبات کا استعمال عادت بنانے سے ڈیمینشیا اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد روزانہ ایک ڈائٹ مشروب پیتے ہیں، ان میں فالج یا ڈیمینشیا کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں لگ بھگ 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
سرخ جیسے گائے یا بکرے کے گوشت میں چکنائی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو دل اور دماغ دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ایسا نہیں کہ آپ سرخ گوشت کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دیں بلکہ اسے محدود کرنا ضروری ہے تاکہ یادداشت اور سوچنے جیسی صلاحیتوں کو عمر میں اضافے کے ساتھ ٹھیک رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
سرخ گوشت کی جگہ مچھلی اور بغیر چربی والے چکن کے گوشت کا استعمال صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔
فاسٹ فوڈ میں چکنائی اور چینی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث الزائمر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اسی طرح فاسٹ فوڈ میں نمک کا بھی زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے اور دماغ تک خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔
اس سے دماغ کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور یادداشت متاثر ہوتی ہے۔
الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال دماغی تنزلی (ڈیمینشیا) کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
الٹرا پراسیس غذاؤں میں مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز اور دیگر شامل ہیں۔
جرنل جاما نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر روزانہ کی 20 فیصد سے زیادہ کیلوریز الٹرا پراسیس غذاؤں کے ذریعے حاصل کی جائیں تو دماغی تنزلی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
اوسطاً ایک فرد روزانہ 2 ہزار کیلوریز پر مبنی غذا کو جزوبدن بناتا ہے تو یہ مقدار 400 کیلوریز کے قریب بن جاتی ہے۔
الکحل کا استعمال پورے جسم کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور دماغ کو بھی اس سے نقصان پہنچتا ہے کیونکہ اس سے دماغی مواصلاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جتنی زیادہ مقدار میں الکحل کا استعمال کیا جائے گا، اتنا زیادہ دماغ کے لیے نئی تفصیلات کا تجزیہ کرنا یا چیزوں کو یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
الکحل کے استعمال سے دماغی الجھن یا ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔