عام انتخابات، ایک خواب

پاکستان اس وقت نگرانوں کی نگرانی میں ہے جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آرمی چیف بذات خود میدان عمل میں ہیں۔ اسمگلنگ روکنے کیلئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کیخلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔معیشت کو استحکام دینے کیلئے ڈالر کی مشکیں کسی جا رہی ہیں لیکن اس سارے عمل میں اگر کوئی چیز نظر انداز ہو رہی ہے تو وہ عام انتخابات ہیں۔نگران حکومت ایک اہم آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے عمل میں لائی گئی تھی۔ 

لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور عوام کی نظروں میں غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ اقتدار کے آخری دنوں میں حکمران اتحاد کے ہاتھوں جمہوری اداروں کی جس طرح بے توقیری ہوئی وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ملک میں 40سال سے زیادہ اقتدار پر براجمان رہنے والی مسلم لیگ نون’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی بھینٹ چڑھا چکی ہے۔عوامی جماعت ہونے کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی اہم عوامی مسائل پر دم سادھے ہوئے ہے۔ بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس عوامی توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ 

جمعیت علماء اسلام اور دیگر اتحادی جماعتیں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف زیر عتاب ہے۔ یوں تمام سیاسی جماعتیں اس وقت عوامی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دینے کے بجائے تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی ہیں اور مہنگائی کے مارے عوام سے باہر نکلنے کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔عام انتخابات پر پہلی ضرب سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں لگائی اور کہا کہ الیکشن کا انعقاد نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہوگا۔کوئی شخص ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ آخر چند ہفتوں میں ایسے کیا حالات و واقعات پیش آگئے کہ حکومت کو پرانی مردم شماری کے بجائے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کی ضرورت پیش آگئی۔ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دیدی اور شتابی سے الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کر دیا کہ نئی مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات نہیں ہو سکتے۔

اس طرح سیاسی جماعتوں، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے مل کر آئین کے آرٹیکل (1) 224سے صریح روگردانی کا اعلان کردیا۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اسکے بعد 90دن میں الیکشن کروانے ضروری ہیں لیکن اب تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے عام انتخابات محض خواب بنکر رہ جائیں گے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کئی دفعہ اپنی گفتگو میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ ایک ''بااختیار'' وزیراعظم ہیں لہٰذا وہ اپنے تئیں معیشت کے حوالے سے ایسے دور رس فیصلے کر رہے ہیں جو نگران حکومت کے مینڈیٹ سے متجاوز ہیں۔

 اگرچہ بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ نگران حکومت کو معاشی اختیارات آئی ایم ایف کے معاہدے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے دیئے گئے ہیں تاہم بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات انتخابات کو ٹالنے کیلئے کیے جارہے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ پہلے ہی درخشاں روایات نہیں رکھتی۔ ووٹ کی پرچی کے ذریعے معرض وجود میں آنیوالے ملک کو ایک طویل عرصے تک انتخابات سے محروم رکھا گیا۔ 1964ء کا صدارتی الیکشن کسی مذاق سے کم نہ تھا۔ 1970ءکے انتخابات بڑی حد تک آزادانہ اور منصفانہ کہلائے جاتے ہیں لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔ 1977ء میں انتخابات کرائے گئے جن کے نتائج کو اپوزیشن نے مسترد کیا اور ملک ایک مرتبہ پھر طویل مارشل لا کے شکنجے میں چلا گیا۔

1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے۔جس سے سیاسی جماعتیں مزید کمزور ہوئیں۔1988ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئی لیکن محض 18 ماہ کے اندر انہیں گھر بھیج دیا گیا۔1990ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نون برسر اقتدار آئی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان انتخابات کو ''چوری کے انتخابات'' قرار دیا۔1993 ءمیں انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بنیں لیکن میاں نواز شریف نے تحریک نجات شروع کی اور 1996ءمیں انہیں ایک مرتبہ پھر گھر بھیج دیا گیا۔1997ءمیں مسلم لیگ نون دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی لیکن پیپلز پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔جنرل پرویز مشرف نے اپنے مارشلائی دور میں 2002ءمیں انتخابات کرائے۔لیکن یہ انتخابات بھی عارضی انتظام ثابت ہوئے،2008 ءمیں پیپلز پارٹی فاتح ٹھہری۔2013ءکے انتخابات کو پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے ''آر اوز''الیکشن قرار دیا۔جبکہ 2018 ءکے انتخابات میں آر ٹی ایس'' بیٹھ ''گیا جسکے بعد یہ نتائج بھی کئی حوالوں سے متنازعہ ر ہے ۔

 انتخابات کی اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن ہوگا۔آج کے حالات ماضی کے حالات سے کئی حوالوں سے مختلف ہیں۔آج بجلی کا بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔ملکی سرحد غیر محفوظ ہے۔اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔جمہوری اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے،عدالتوں کی کارکردگی کسی طور بھی اس قابل نہیں کہ قوم اس پر مطمئن ہو،ان حالات میں سیاسی جماعتیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔اگر ملک جمہوریت کے راستے پر گامزن نہ ہوا،بروقت انتخابات نہ کرائے گئے،تو ملک کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری ملک کی اشرافیہ پر عائد ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔